کیا انڈیا پاکستان کشیدگی کے پیچھے اسرائیل اور امریکہ کی خفیہ منصوبہ بندی چھپی ہے؟

08:501/05/2025, جمعرات
جنرل1/05/2025, جمعرات
ابراہیم کاراگُل

تصور کریں انڈیا پاکستان پر حملہ کرتا ہے۔ جواب میں پاکستان اور بنگلہ دیش، دونوں انڈیا پر حملہ کرلیتے ہیں۔ ان ملکوں کے درمیان پرانے حل نہ ہونے والے جھگڑے، جو 20ویں صدی سے چلے آ رہے تھے، ایک بڑی جنگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ چائنہ بھی خاموش نہیں رہتا۔ وہ نارتھ سے انڈیا پر حملہ کرتا ہے، کیونکہ وہ انڈیا کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ چائنہ جانتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کئی سالوں سے انڈیا کی مدد کر رہے تھے تاکہ چائنہ کی طاقت کو روکا جا سکے۔ شاید کچھ بڑی طاقتیں پہلے سے اس موقع کی تلاش میں ہیں۔ ادھر افغانستان

خبروں کی فہرست

تصور کریں انڈیا پاکستان پر حملہ کرتا ہے۔ جواب میں پاکستان اور بنگلہ دیش، دونوں انڈیا پر حملہ کرلیتے ہیں۔ ان ملکوں کے درمیان پرانے حل نہ ہونے والے جھگڑے، جو 20ویں صدی سے چلے آ رہے تھے، ایک بڑی جنگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

چائنہ بھی خاموش نہیں رہتا۔ وہ نارتھ سے انڈیا پر حملہ کرتا ہے، کیونکہ وہ انڈیا کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ چائنہ جانتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کئی سالوں سے انڈیا کی مدد کر رہے تھے تاکہ چائنہ کی طاقت کو روکا جا سکے۔ شاید کچھ بڑی طاقتیں پہلے سے اس موقع کی تلاش میں ہیں۔

ادھر افغانستان کی طالبان حکومت، جو ابھی تک پاکستان سے ناراض ہے، ایک ایسے موقع کی تلاش میں ہے جسے وہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکے۔ اگرچہ اس وقت طالبان کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کچھ بہتر ہیں، لیکن پھر بھی وہ پاکستان پر حملے کا سوچ سکتے ہیں۔ مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ پورے اسلامی دنیا کی حمایت کھو سکتے ہیں اور شاید واقعی کھو بیٹھیں۔


بلوچستان کے ذریعے دو ملکوں کو تقسیم کرنے کا منصوبہ

اسی دوران ایران اس صورتحال کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے، جس سے پاکستان کے ساتھ تناؤ بڑھ سکتا ہے۔ یاد رکھیں ایران اور پاکستان پہلے ہی بلوچستان سرحد کے قریب میزائل حملے کر چکے ہیں۔ پاکستان کو دونوں طرف سے مسائل کا سامنا ہے، ایک ایران اور دوسرا افغانستان۔

پھر اسی وقت امریکہ اور اسرائیل بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپوں کو متحرک کرتے ہیں، اس بار ان کا ہدف پاکستان اور ایران دونوں ہیں اور پھر دونوں ممالک انتشار کے دہانے تک پہنچ جاتے ہیں۔

اس افراتفری میں امریکہ اور اسرائیل بحرِ ہند میں ایک نیا طاقتور بحری اڈہ حاصل کر لیتے ہیں اور بلوچستان کے قدرتی گیس کے ذخائر تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔


آذربائیجان-ایران جھڑپیں

جیسے ہی تنازعہ پورے خطے میں پھیلتا ہے، آذربائیجان اور ایران بھی لڑائی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ آذربائیجان، جسے اسرائیل کی حمایت حاصل ہے، ایران پر حملہ کرلیتا ہے۔

اسی دوران ایران کے اندر نسلی ترکوں کو بھی اکسایا جاتا ہے، جس سے ایران کے اندر انتشار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

اگر ایسا ہوا تو پوری صورتحال اسرائیل کے مفاد میں جائے گی۔ انڈیا سے لے کر ایران تک، قزوین سے لے کر خلیج فارس تک، پورا خطہ جنگ میں گھرا ہوا ہوگا اور اسرائیل اپنے تمام مفادات کا استعمال کرکے مشرق وسطیٰ پر کنٹرول حاصل کرلے گا۔


صرف ترکیہ ہی اس کھیل کو روک سکتا ہے

اس کھیل کو جو اسرائیل نے ڈیزائن کیا اور امریکہ نے چلایا، صرف ترکیہ ہی روک سکتا ہے۔ ترکیہ کے پاس وہ طاقت، حکمت عملی اور تجربہ ہے جو اس کھیل کو روکنے کے لیے ضروری ہے، جیسا کہ اس نے شام، لیبیا، پی کے کے کے منصوبوں اور اسرائیل-یونان محور کے خلاف مشرقی بحیرہ روم میں کیا۔

یقیناً یہ سب ابھی مبالغہ آمیز لگ سکتا ہے۔ لیکن چونکہ ہم ایک ایسے دور میں ہیں جہاں ہر دن میں غیر معمولی اور غیر متوقع واقعات ہو رہے ہیں، اس لیے یہ کہنا بھی مشکل ہو رہا ہے کہ کل کیا ہوگا۔


چین-امریکہ تجارتی جنگ، اسرائیل کے منصوبے اور علاقائی جنگ

جب دنیا امریکہ اور چائنہ کی تجارتی جنگ کے جیوپولیٹیکل اثرات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھی، اصل دھماکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہوتا ہے۔

ایک خوفناک تیز رفتار میں دور دو نیوکلئیر طاقتیں جنگ کے دہانے پر پہنچ جاتی ہیں۔ انڈیا-اسرائیل کی پارٹنرشپ اور امریکی نائب صدر کا انڈیا کا دورہ، عالمی سطح پر ایک مضبوط اشارہ ہے کہ امریکہ انڈیا کے ساتھ کھڑا ہے۔

ایک دہشت گرد حملہ جس میں 29 لوگ مارے گئے، اس کی وجہ سے صورتحال شدت اختیار کرتی ہے۔ انڈیا فوراً پاکستان پر الزام لگاتا ہے اور پھر دونوں ملک جنگ کے بارے میں کھلے الفاظ میں بات کرتے ہیں۔

عام طور پر کسی ایک حملے کے بعد حالات اتنی تیزی سے خراب نہیں ہوتے، لیکن اس مخصوص صورتحال میں منصوبہ واضح تھا۔ نائب صدر جیمز ڈیوڈ (جے ڈی) وینس حملے کے اگلے ہی دن انڈیا میں موجود تھے۔


جنگ سے پہلے آخری گھنٹے

پاکستان کی جانب سے غیر جانبدار تحقیقات کی درخواست کو نظر انداز کیا گیا۔

پاکستان کے سیکورٹی ذرائع نے اس حملے کے لیے اسرائیلی اور انڈین انٹیلیجنس کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ فوجوں کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا۔ بارڈرز بند کرکے دونوں ملکوں کے شہریوں کو اپنے اپنے وطن واپس جانے پر مجبور کیا گیا۔ فضائی حدود بند کر دی گئیں۔ جنگ بندی معاہدے معطل کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ انڈیا نے سندھ طاس معاہدے سے الگ ہوکر پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دی۔

پھر دونوں فوجوں نے ایل او سی پر فائرنگ کرنا شروع کردی اور میزائل سسٹمز فعال کردیے گئے۔

اب دونوں ممالک جنگ کے ’آخری گھنٹے‘ میں پہنچ چکے ہیں۔ صورتحال مزید کشیدہ ہوئی تو یہ صرف انڈیا اور پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل شام میں ترکیہ کے ساتھ کشیدگی کا سامنا کر رہا ہے، لیکن ترکیہ کی پاکستان اور انڈونیشیا کے ساتھ فوجی اتحادی تعلقات مضبوط ہیں۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان اچانک جنگ کی طرف بڑھنا واضح طور پر ایک بڑے منصوبے کا حصہ لگتا ہے۔


انڈیا پاکستان کشیدگی سے ترکیہ کو بھی پیغام دیا جارہا ہے

امریکہ انڈیا کے ساتھ ہے اور چائنہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔

اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ پورے خطے میں، مشرق وسطیٰ سے لے کر جنوبی ایشیا تک، بشمول وسطی ایشیا میں، کچھ بڑا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

ایسا لگ رہا ہے جیسے ایک ایسا منصوبہ بنایا جا رہا ہو جس کا تعلق ترکیہ کے اتحادی ممالک سے بھی ہو۔ یہ صرف علاقائی رقابتوں کی بات نہیں ہے بلکہ یہ امریکی اور چائنہ کے درمیان طاقت کی بڑی لڑائی کا حصہ ہے اور اس سب کے مرکز میں اسرائیل ہے۔

امریکہ اور اسرائیل انڈیا کے ذریعے چائنہ اور ترکیہ کو ایک پیغام بھیج رہے ہیں۔ دونوں طرف سے فوجی حمایت پہلے ہی بھیجی جا چکی ہے: امریکہ اور اسرائیل نے انڈیا کو اور ترکیہ نے پاکستان کو۔


پاکستان اور بنگلہ دیش بھی اکیلے انڈیا کو توڑ سکتے ہیں

ترکیہ پاکستان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہوگا، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے۔ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش بھی جنگ میں شامل ہونے کا امکان رکھتا ہے۔ آج کل پاکستان اور بنگلہ دیش تیزی سے اپنے بھائی چارے کے تعلقات کو دوبارہ مضبوط کر رہے ہیں اور بنگلہ دیش کی فوج پہلے ہی انڈین سرحد پر اضافی دستے بھیج رہی ہے۔

اگر صرف پاکستان اور بنگلہ دیش انڈیا کے ساتھ ایک ہی وقت میں لڑیں، تو یہ انڈیا کے ٹوٹنے کا سبب بن سکتا ہے۔ چائنہ کی طرف سے انڈیا کے نارتھ پر دباؤ پہلے ہی بڑھ رہا ہے۔ جس سے انڈیا جلد ہی ایک ایسے خوفناک منظرنامے میں پھنس سکتا ہے جس سے نکلنا مشکل ہو۔

امریکہ اور اسرائیل شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ انڈیا کو چائنہ کو دبانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں لیکن نتیجہ ممکنہ طور پر اس کے برعکس ہوگا۔

یہ منصوبہ جلدبازی میں اور بغیر سوچے سمجھے بنایا گیا لگتا ہے۔ انڈیا کا علاقائی اثر بڑھانے کے بجائے، یہ جنگ اسے تباہ کر دے گی۔

انڈیا جنگ نہیں جیت سکتا، اسے صرف سازش کے لیے استعمال کیا جارہا ہے

انڈیا کے پاس کسی جنگ کو جیتنے یا اس سے کچھ حاصل کرنے کا کوئی حقیقت پسندانہ موقع نہیں ہے۔ تاریخ میں اس نے کبھی بھی جنگ کے ذریعے کچھ نہیں حاصل کیا۔

تمام دعووں کے باوجود اس کی علاقائی فوجی صلاحیت بہت محدود ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے لیے، انڈیا کو صرف سازشی منصوبے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور کچھ نہیں۔ مغربی حمایت اسے بچا نہیں سکتی۔ انڈیا کو چائنہ کے خلاف توازن بنانے کی کوشش مہنگی پڑے گی۔

چاہے انڈیا کی معیشت بڑھے یا اس کی آبادی زیادہ ہو، اس کی عالمی سطح پر کھیلنے کی صلاحیت ابھی بھی ابتدائی سطح کی ہے اور چونکہ انڈیا کے پاس کوئی سامراجی روایت نہیں ہے، جن کی مدد سے وہ دنیا بھر میں اپنی طاقت یا اثر و رسوخ قائم کر سکے اس لیے وہ عالمی سطح پر طاقت حاصل نہیں کرسکتا۔


سب سے بڑا خمیازہ اسرائیل کو بھگتنا پڑے گا

اس وسیع علاقے کو، جو انڈونیشیا سے لے کر ایٹلانٹک تک پھیلا ہے، جنوبی ایشیا کے ذریعے تقسیم کرنے کی کوئی بھی کوشش ناکام ہوگی۔ اسرائیل شاید ابھی یہ کوشش کر رہا ہو لیکن یہ تباہی کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ جب ردعمل آئے گا، تو اسرائیل ہی قیمت چکائے گا۔

ہم شاید پاکستان اور بنگلہ دیش کو ایک نئے علاقائی طاقت کے طور پر ابھرتے ہوئے دیکھیں گے۔ کیونکہ اگر چائنہ اور ترکیہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، تو امریکہ یا اسرائیل کی حمایت انڈیا کو بچانے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ انڈیا ٹوٹ جائے گا۔

اس خطے میں اںڈیا کا کوئی حمایتی نہیں ہوگا

صرف ایک سوال باقی ہے کہ ایران اور افغانستان کہاں کھڑے ہوں گے۔ ان دونوں کے علاوہ انڈونیشیا اور ترکیہ کے درمیان کوئی بھی ملک اںڈیا کی حمایت نہیں کرے گا۔

انڈیا مکمل طور پر تنہا ہوگا اور اس کی معیشت تباہ ہو جائے گی، اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکہ کی طاقت کے ذریعے ایران کو کمزور کرے، انڈیا کی طاقت سے پاکستان کو اور ترکیہ کو یونان اور قبرص کے ذریعے کمزور کرے۔

کل وہ انڈونیشیا کو آسٹریلیا کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

لیکن پچھلے دس سالوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جہاں بھی ترکیہ نے مداخلت کی، اس نے کھیل کے قوانین بدل دیے ہیں۔

ہم نے ہر اس تنازعے میں تاریخ کو دوبارہ لکھتے ہوئے دیکھا ہے جس میں ترکیہ نے مداخلت کی اور پاکستان-انڈیا کی جنگ اب تک کا سب سے بڑا گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔


اگر جنگ چھڑتی ہے، تو انڈیا کشمیر کھو دے گا۔

اگر جنگ چھڑتی ہے، تو انڈیا کشمیر کھو دے گا۔ امریکہ-اسرائیل کا اتحاد جنوبی ایشیا میں بڑے اسٹرٹیجک شکستوں کا سامنا کرے گا۔ اور جب گرد بکھرے گی، تو شاید پورے اس علاقے میں کوئی ایسا ملک نہ ہو جو امریکہ یا اسرائیل کو اپنے ساتھی کے طور پر دیکھے۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ: اگر اسرائیل اور امریکہ انڈیا کو پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پھر پورے خطے میں تصادم پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، تو اصل ردعمل خود مشرق وسطیٰ سے آئے گا۔ جو انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔


بابوری، سلجوقی، عثمانی۔۔۔ یہ سب اس جنگ میں شامل ہوں گے!

موجودہ عالمی سیاسی تناؤ اور جنگوں میں تاریخی سلطنتوں جیسے بابوری، سلجوقی اور عثمانی کی میراث یا طاقتیں دوبارہ فعال ہو سکتی ہیں اور ایک بڑی جنگ میں حصہ لے سکتی ہیں۔ ترکی اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ بھی اس صورتحال کا حصہ ہو سکتی ہے۔

اگر تاریخ نے دوبارہ زور پکڑا، تو اس کے اثرات بہت گہرے اور اہم ہوں گے، اور تب ہی یہ واضح ہوگا کہ کون اپنی غلط حکمت عملی یا فیصلے کی وجہ سے شکست کھا رہا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے تنازعہ کا حل صرف جنوبی ایشیا میں نہیں، بلکہ اس کا جواب بحیرہ روم اور مشرق وسطیٰ کے علاقے میں ہوگا، جہاں عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے اثر ڈال سکتی ہیں۔












#انڈیا پاکستان کشیدگی
#ترکیہ
#جنوبی ایشیا
#جنگ