’اسرائیل کی مسلسل حمایت امریکہ کے لیے اب سیاسی بوجھ‘

16:2829/07/2025, منگل
جنرل29/07/2025, منگل
عبداللہ مُراد اوغلو

امریکہ میں اسرائیل کے لیے غیر مشروط حمایت کے حوالے سے عوامی رائے میں ڈرامائی تبدیلی نے صیہونیوں اور ان کے امریکی اتحادیوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ حالیہ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ تمام ووٹر گروپس (جیسے نوجوان، بوڑھے، ریپبلکن، ڈیموکریٹس وغیرہ) میں اسرائیل کے لیے ہمدردی میں کمی آ رہی ہے۔ اسی دوران پہلے جس ’اسرائیل لابی‘ کو پسِ پردہ سمجھا جاتا تھا، وہ اب کھل کر وائٹ ہاؤس اور کانگریس پر اثرانداز ہوتی نظر آ رہی ہے اور یہ بات عوام میں تنازع اور سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ یہ تبدیلی ڈیموکریٹک پارٹی پر سب سے

امریکہ میں اسرائیل کے لیے غیر مشروط حمایت کے حوالے سے عوامی رائے میں ڈرامائی تبدیلی نے صیہونیوں اور ان کے امریکی اتحادیوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ حالیہ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ تمام ووٹر گروپس (جیسے نوجوان، بوڑھے، ریپبلکن، ڈیموکریٹس وغیرہ) میں اسرائیل کے لیے ہمدردی میں کمی آ رہی ہے۔ اسی دوران پہلے جس ’اسرائیل لابی‘ کو پسِ پردہ سمجھا جاتا تھا، وہ اب کھل کر وائٹ ہاؤس اور کانگریس پر اثرانداز ہوتی نظر آ رہی ہے اور یہ بات عوام میں تنازع اور سوالات کو جنم دے رہی ہے۔

یہ تبدیلی ڈیموکریٹک پارٹی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہو رہی ہے۔ پارٹی کی پرانی لیڈرشپ اور نوجوان کارکنوں کے درمیان اختلاف بڑھتا جا رہا ہے۔ یہی اختلاف 2024 کے الیکشن میں کملا ہیرس کی ہار کی بڑی وجہ بنا۔ جب وہ بائیڈن کے ساتھ نائب صدر تھیں، تو انہوں نے پارٹی کے نوجوان اور ترقی پسند لوگوں کی باتوں کو نظر انداز کیا اور اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد پر کوئی شرط لگانے سے انکار کر دیا۔

مین سٹریم میڈیا اور ڈیموکریٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے کملا ہیرس کی شکست میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کے کردار کو کم اہمیت دینے کی کوشش کی۔ الیکشن کے بعد جب میڈیا اداروں نے تجزیے کیے تو انہوں نے پارٹی کے نوجوان اور ترقی پسند ووٹرز کی رائے اور خدشات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے، نظر انداز کر دیا۔

لیکن نیویارک کے میئر کے لیے ہونے والے حالیہ ڈیموکریٹک پرائمری الیکشن نے پارٹی کے بڑے رہنماؤں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ظہران ممدانی، جو اسرائیل پر کھل کر تنقید کرتے ہیں، نے اسرائیل کے پُرجوش حامی اور سابق گورنر اینڈریو کومو کو شکست دے دی۔ یوگنڈا میں ایک انڈین خاندان میں پیدا ہونے والے ممدانی کی جیت نے اسرائیل لابی اور ڈیموکریٹک قیادت دونوں کو حیران کر دیا۔ اب پارٹی کی اعلیٰ قیادت یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے کہ ممدانی کی امیدواری کے جواب میں کیا حکمتِ عملی اختیار کی جائے۔

نیویارک، جو امریکی طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے، میں ممدانی کی مقبولیت ڈیموکریٹ پارٹی کے اسرائیل نواز حلقے کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ اب اصل سوال یہ ہے: کیا پارٹی کی قیادت آخرکار یہ تسلیم کرے گی کہ اسرائیل کی اندھی حمایت اب ان کے لیے سیاسی نقصان کا سبب بن رہی ہے؟

ڈیموکریٹس پہلے ہی صدارتی الیکشن ہار چکے ہیں اور اب کانگریس کے دونوں حصوں (یعنی ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ) میں بھی ان کی اکثریت نہیں رہی۔ 2026 میں ایوانِ نمائندگان کی تمام نشستوں اور سینیٹ کی کچھ نشستوں پر دوبارہ انتخابات ہوں گے۔ ایسے وقت میں جب ’فلسطینیوں کی نسل کشی‘ کی خبریں ہر جگہ چھائی ہوئی ہیں، اسرائیل کے خلاف بڑھتے ہوئے جذبات کو نظر انداز کرنا اب مشکل ہو گیا ہے۔

ایک لبرل یہودی مصنف پیٹر بینارٹ نے 6 جولائی کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’ڈیموکریٹس کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اسرائیل پر رائے تیزی سے بدل رہی ہیں‘ میں اس صورتحال کو واضح انداز میں بیان کیا۔ انہوں نے لکھا کہ جن لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ ممدانی پرائمری الیکشن ہار جائیں گے، وہ عوامی رائے میں آنے والی تبدیلی کو سمجھنے میں ناکام رہے۔

بینارٹ کے مطابق ممدانی کی غیر متوقع جیت اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی منظرنامہ اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ نوجوان ڈیموکریٹس اور پارٹی کی پرانی قیادت کے درمیان اسرائیل کے حوالے سے بڑھتا ہوا فرق پارٹی کے مستقبل کے لیے سنگین خطرات پیدا کر سکتا ہے۔ بینارٹ نے لکھا کہ اگر ڈیموکریٹس نے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق عوامی رائے میں آنے والی اس بڑی تبدیلی کو نظر انداز کیا، تو یہ ان کے لیے ایک سنگین غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔

بینارٹ نے حالیہ سروے کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا:

’2013 میں ڈیموکریٹس اسرائیل کو فلسطینیوں پر 36 پوائنٹس کی برتری سے ترجیح دیتے تھے۔ آج وہ فلسطینیوں کو اسرائیل پر 38 پوائنٹس سے ترجیح دے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ نوجوان ریپبلکنز، خاص طور پر 50 سال سے کم عمر لوگ، بھی اب اسرائیل کو منفی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔‘

مختصراً یہ کہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت اب امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر ایک شدید متنازع مسئلہ بن چکی ہے۔ پارٹی قیادت اور نوجوان ووٹرز کے درمیان بڑھتا ہوا یہ ٹکراؤ امریکی سیاست کا مستقبل بدل سکتا ہے۔ جیسے جیسے امریکی عوام کی نظر میں اسرائیل ایک سیاسی اور اخلاقی بوجھ بنتا جا رہا ہے، یہ اندرونی اختلافات مزید گہرے ہوتے جائیں گے۔

عالمی سطح پر بھی امریکہ کو اب ایک ایسی ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو صرف اسرائیل کی پالیسیوں کا تسلسل ہے اور یہی تاثر واشنگٹن کو دنیا میں پہلے سے زیادہ تنہا کر رہا ہے۔



#مشرق وسطیٰ
#اسرائیل حماس جنگ
#امریکا