
حالیہ ہفتوں میں ٹرمپ انتظامیہ وینزویلا میں حکومت کی تبدیلی کے لیے فوجی مداخلت کا اشارہ دے رہی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع یہ دلیل دے رہا ہے کہ منشیات کی سمگلنگ اور منشیات سے جڑی دہشت گردی امریکہ کے لیے فوری خطرہ ہیں اور وہ بین الاقوامی پانیوں میں ایسے جہازوں کے خلاف عدالتی کارروائی کے بغیر حملے کر رہا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ منشیات سمگل کر رہے ہیں۔
کیریبین میں بحری فوجی دستوں کی تعیناتی اور صدر ٹرمپ کا اعلان کہ انہوں نے سی آئی اے کو وینزویلا میں کارروائی کرنے کی اجازت دی ہے، ایسے اقدامات ہیں جو جنگ کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔ اپنی پہلی مدت میں حکومت بدلنے کے لیے زیادہ دباؤ اور بین الاقوامی تنہائی کی پالیسی اپنانے کے بعد، ٹرمپ اپنی دوسری مدت میں زیادہ تر فوجی اور خفیہ کارروائیوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی، فوجی مداخلت یا وینزویلا پر قبضے کے امکانات بڑھ رہے ہیں، جو امریکہ کو جنوبی امریکہ میں ایک طویل اور مشکل جنگ میں پھنس سکتا ہے، جسے ’نئی ویتنام‘ کہا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں ٹرمپ کو قانونی اور سیاسی رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
تاہم امریکی صدر کا وہ بیان کہ وینزویلا کے رہنما مادورو ’بات کرنا چاہتے ہیں‘ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ عارضی طور پر مکمل حملے کے بجائے طاقت کے مظاہرے پر اکتفا کررہی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ واشنگٹن کی وینزویلا پر دباؤ کی حکمت عملی صرف منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ (جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وینزویلا ریاستی سطح پر ’منشیات سے جڑی دہشت گردی‘ پھیلا رہا ہے) کا مؤقف ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ امریکہ کے لیے براہ راست قومی سلامتی کا خطرہ ہے۔ اس طرح وہ کانگریس سے جنگ کی منظوری کے بغیر فوجی کارروائیاں انجام دینے کا اختیار استعمال کر رہی ہے۔
جو اقدامات کیے گئے ہیں وہ صرف منشیات کے خلاف جنگ میں نئے دور کے اشارے دینے سے کہیں زیادہ ہیں۔ کیریبین میں فوجی تعیناتیاں، سی آئی اے کو دی گئی کارروائی کی اجازت اور تقریباً 20 بحری حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس کے پیچھے ایک وسیع مقصد ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا بیان (جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مادورو حکومت کو بدلنا چاہتے ہیں) اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ فوجی مداخلت کے ذریعے بھی یہ مقصد حاصل کر سکتی ہے۔
لیکن میرے خیال میں اس بات میں زیادہ حقیقت ہے کہ امریکہ وینزویلا کی قیادت کو ہٹانے کے لیے براہِ راست حملہ یا فوجی مداخلت کرنے کے بجائے، دباؤ بڑھاتے ہوئے کچھ رعایتیں حاصل کرنے اور ملک کے اندرونی بحران کو آگے بڑھنے دینا چاہے گا۔ ایک ایسی لچکدار پالیسی، جس میں فوجی کارروائیوں کی دھمکی کے ذریعے مادورو پر مسلسل دباؤ ڈالا جائے بنسبت اس کے کہ امریکہ ایک ہی کارروائی میں اسے ہٹا دے۔ ایسا کرنے سے واشنگٹن یہ بھی اشارہ دے رہا ہے کہ وہ اس خطے پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے، خاص طور پر روس اور چائنہ کے حالیہ بڑھتے اثر و رسوخ کے جواب میں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ محدود اور مرحلہ وار فوجی کارروائیوں پر مبنی ہائبرڈ مداخلت کو ترجیح دے، بجائے اس کے کہ مکمل زمینی حملہ کیا جائے۔ وینزویلا کے ساحل کے قریب بحری فوج کی تعیناتی کی وجہ سے امریکہ سمندری ناکہ بندی کر سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر ٹھیک نشانہ بازی بھی کر سکتا ہے۔
ملک کے اندر سی آئی اے اور سپیشل فورسز کی بڑھتی ہوئی سرگرمی حکومت کو اندر سے کمزور کرسکتی ہیں۔ لیکن اگر جیسے ہی فوجی خطرے کی باتیں بڑھیں، مادورو کی حمایت میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ لوگ بیرونی دھمکیوں کے خلاف یکجا ہوجائیں گے۔ چونکہ امریکہ نہیں چاہتا کہ اسے ایک اور ویتنام، عراق یا افغانستان جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے، اس لیے مداخلت کا منظرنامہ ایسے ماڈل میں بدل سکتا ہے جس میں دہشت گردی کے خلاف کارروائی کو حکومت بدلنے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہ پہلے ہی واضح ہے کہ وینزویلا میں حکومت کی تبدیلی پاناما میں 1990 کے امریکی حملے جتنی آسان نہیں ہوگی جس میں نوریگا کو ہٹا دیا گیا تھا۔
اپنے ہی ملک میں سیاسی رکاوٹیں، خطے میں ردعمل اور عالمی طاقت کے توازن کی صورتحال ٹرمپ انتظامیہ کے لیے وینزویلا پر ممکنہ حملے کے حوالے سے بڑے چیلنجز ہیں۔ امریکی عوام نئی بیرونی فوجی مداخلت کے سخت مخالف ہیں اور کانگریس سے جنگ کی منظوری حاصل کرنا ٹرمپ کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ منشیات سے جڑی دہشت گردی کے دلائل دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ٹرمپ مہنگائی کے مسائل پر قابو پانے میں ناکام، امریکہ میں ہسپانوی کمیونٹی کے ساتھ امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے کشیدگی اور ایپسٹین اسکینڈل کی وجہ سے اپنے حمایتی حلقوں میں پھوٹ کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت بہت کم ہے۔
یہ حقیقت کہ برازیل، کولمبیا اور میکسیکو جیسے ممالک ممکنہ حملے کے خلاف پہلے ہی آواز بلند کر رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کو خطے میں حمایت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ وینزویلا میں روس کی فوجی موجودگی کی وجہ سے بھی پوتن امریکی مداخلت کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے۔ ان سب عوامل کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ وینزویلا کے معاملے میں ایسا طریقہ اپنا رہے ہیں جس میں وہ بہت زیادہ دباؤ تو ڈالتے ہیں، لیکن مکمل جنگ کی طرف نہیں جاسکتے۔
اگرچہ واشنگٹن وینزویلا کی حکومت کو کمزور کرنے اور اس دباؤ کی حکمت عملی کے ذریعے خود کو لاطینی امریکہ کی اہم طاقت کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن یہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ براہِ راست حملہ حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے انتظامیہ کی فوجی تعیناتی اور پینٹاگون کی سمگلرز کے خلاف عدالتی کارروائی کے بغیر حملے اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ واشنگٹن منشیات کے خلاف کارروائی کے بہانے خطے میں اپنا کنٹرول ظاہر کر رہا ہے۔
اس تناظر میں وینزویلا امریکہ، روس اور چائنہ کے درمیان عالمی طاقت کے مقابلے کا ایک سب سے اہم محاذ بن کر سامنے آتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے سب سے اچھا منظرنامہ یہ ہوگا کہ اس کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی حکمت عملی مادورو کو ہٹائے اور ایسی حکومت لائے جو امریکہ کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ بدترین منظرنامہ یہ ہوگا کہ مکمل جنگ چھیڑی جائے اور سالوں تک جاری رہنے والی گوریلا جنگ میں پھنس جائیں۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ درمیانی راستہ اختیار کریں گے، فوجی کارروائیاں جاری رکھیں گے لیکن بڑے پیمانے پر جنگ سے بچیں گے۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔