حماس کے ترجمان ابوعبیدہ نے جو کچھ کہا سچ ثابت ہوا۔۔۔۔۔۔

11:0427/01/2025, Pazartesi
جنرل27/01/2025, Pazartesi
یاسین اکتائے

20 جنوری تک امریکہ میں تمام نظریں سابق صدر جو بائیڈن کی الوداعی تقریر پر تھیں۔ نئے صدر کی حلف برداری سے قبل دی گئی بائیڈن کی بطور صدر آخری تقریر کو دنیا بھر میں اہمیت دی گئی ۔اس تقریر میں بائیڈن کی کوشش تھی کہ وہ اپنے چار سالہ دور کا جائزہ پیش کریں، ان شعبوں پر روشنی ڈالیں جن کے بارے وہ ترقی کے دعوے کرتے ہیں۔ اپنا دور ختم ہونے سے صرف تین دن پہلے بائیڈن نے اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کے معاہدے کو کامیابی کے طور پر پیش کیا، اسے اپنی حکومت کے کارناموں میں سے ایک قرار دیا۔ اس خطاب کے دوران الجزیرہ

خبروں کی فہرست

20 جنوری تک امریکہ میں تمام نظریں سابق صدر جو بائیڈن کی الوداعی تقریر پر تھیں۔ نئے صدر کی حلف برداری سے قبل دی گئی بائیڈن کی بطور صدر آخری تقریر کو دنیا بھر میں اہمیت دی گئی ۔اس تقریر میں بائیڈن کی کوشش تھی کہ وہ اپنے چار سالہ دور کا جائزہ پیش کریں، ان شعبوں پر روشنی ڈالیں جن کے بارے وہ ترقی کے دعوے کرتے ہیں۔

اپنا دور ختم ہونے سے صرف تین دن پہلے بائیڈن نے اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کے معاہدے کو کامیابی کے طور پر پیش کیا، اسے اپنی حکومت کے کارناموں میں سے ایک قرار دیا۔ اس خطاب کے دوران الجزیرہ کی لائیو نشریات میں اچانک خلل آیا اور بائیڈن کی جگہ حماس ملٹری ونگ کے ترجمان ابوعبیدہ کے بیان کی پہلے سے ریکارڈ شدہ ویڈیو نشر ہوئی۔ ادارے کے اس انتخاب پر سوال اُٹھے کہ کیا ابوعبیدہ کے ویڈیو بیان کے لیے اتنی اہم نشریات کو روکنا ضروری تھا؟ اس پر مختلف آراء ہوسکتی ہیں تاہم بہت سے لوگوں نے اسے جرات مندانہ اور علامتی اقدام قرار دیا۔

بائیڈن نے تقریر میں جو کچھ کہا (خصوصاً مشرق وسطیٰ کے بارے میں) اسے ناقدین نے سراسر جھوٹ یا پھر غیر اہم قرار دیا۔ بائیڈن کی حکومت میں 471 دن تک امریکہ غزہ میں نسل کشی پر نا صرف خاموش رہا بلکہ اس نے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت بھی کی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کسی بھی امریکی صدر کے پاس مداخلت کر کے ایسے اقدامات کو رکوانے کا اختیار ہے۔ حلف اٹھانے سے پہلے ٹرمپ کے بیانات سے ثابت ہوا کہ امریکہ اس معاملے میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، ان بیانات سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں میں امریکہ کے کردار کا راز بھی فاش ہوگیا۔

بائیڈن کے خطاب کے برعکس، ابوعبیدہ کے بیان کو زیادہ واضح اور حقائق پر مبنی قرار دیا گیا۔ یہاں تک کہ مخالفین بھی ان کی باتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ کچھ اسرائیلی میڈیا اداروں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ابوعبیدہ کے بیانات میں غزہ کے زمینی حقائق کے بارے میں نیتن یاہو سے زیادہ وضاحت ہوتی ہے، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم کے دعوے قابل اعتبار نہیں ہوتے۔ 7اکتوبر کے بعد غزہ میں ہونے والی پیش رفت نیتن ہاہو کے بیانات سے مختلف اور ابوعبیدہ کے بیانات کے مطابق تھی۔

طوفان الاقصیٰ آپریشن (7 اکتوبر حماس حملے) کے اہم ترین نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ ابوعبیدہ کا بیانیہ مزید طاقتور ہوگیا ہے، اس نے اسرائیلی اور امریکی بیانات کی بنیادیں ہلا دیں۔ حماس اور اس کے ترجمان نے میڈیا، ادب، سیاست اور سنیما کے ذریعے پھیلائے گئے صیہونی بیانیے کو عبرتناک شکست دی ہے۔

خود اسرائیل کے اندر عام لوگوں کا بھی نیتن یاہو پر سے اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی شہری قابل اعتبار معلومات کے لیے ابوعبیدہ کی اپ ڈیٹس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی عہدیداروں پر اپنے ہی عوام کو گمراہ کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔ دوسری طرف ابوعبیدہ کے بیانات سچے ثابت ہورہے ہیں۔ ان کی شفافیت میں فلسطینیوں کے بھاری نقصانات کے امکانات کو تسلیم کرنا بھی شامل ہے، اس سے ان کی ساکھ مزید مستحکم ہوئی ہے۔ انہوں نے مسلسل اس بات پر زوردیا ہے کہ ان کی جدوجہد ایک جہاد ہے جس میں فتح اور شہادت دونوں شامل ہیں۔

ابوعبیدہ کے تازہ ترین خطاب کو فتح کا اعلان قراردیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ قرآن کی سورہ الا اسراء کی آیات کا حوالہ دیا اور مزاحمت کی دینی بنیادوں کی وضاحت کی۔ انہوں نے زور دیا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت کی جڑیں مذہبی اصولوں پر مبنی ہونی چاہئیں۔ قبضہ کرنے والے جارحیت کے جواز کے لیے مذہب کے بیانیے کو توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں، ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔

ان کی تقریر کا اہم اورنمایاں حصہ قربانیوں کا اعتراف تھا، انہوں نے یحیٰی سنوار، اسماعیل ہنیہ، صالح العروری جیسے رہنماؤں کی شہادت کا خصوصی ذکر کیا۔ دیگر تحریکوں کے برعکس جہاں قائیدین کی موت مقصد کو کمزور کر دیتی ہے، ان رہنماؤں کی شہادت نے مزاحمت میں نئی جان ڈال دی۔ خاص طور پر یحیٰی سنوار کی شہادت نے انہیں بے مثال بہادری کی علامت بنا دیا ہے۔ اور اُن کی قربانی نے صرف غزہ ہی نہیں دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کو نیا جذبہ فراہم کیا۔

ابوعبیدہ کے اعلان نے ثابت کیا کہ اس جدوجہد کی بنیاد پختہ ایمان ہے، یہ ذاتی مفادات یا دنیاوی فائدے سے پاک ہے۔ ان کے الفاظ نے یاددلایا کہ ان کا مقصد مقدس ہے اوروہ شہادت کو اعلیٰ ترین رتبہ سمجھتے ہیں۔ رہنماؤں کا قربانی دینے پر تیار رہنا ان کے مشن سے خلوص کا ایک ثبوت قراردیا جارہاہے ۔


#حماس اسرائیل جنگ
#اسرائیل
#حماس
#امریکا