
متاثرین کا تباہ شدہ گھروں کی تعمیر اور دیہات کی بحالی کے لیے فوری امداد کی اپیل

جب 31 اگست کو دیوا گل وادی کے گاوٴں اندرلاچک کی زمین ہلی، تو وہاں کے رہائشیوں کی پہلے سے مشکلات میں گھری زندگی ان کے گھروں کی دیواروں کے ساتھ ہی تباہ ہو گئی۔
33 سالہ انگریزی کے استاد عبد الواحد نے بتاتے ہیں کہ ’ہمارے گھروں کی دیواریں گر چکی ہیں یا جو دیواریں بچ گئی ہیں ان میں دراڑیں ہیں۔ ہم اپنے گھروں میں نہیں رہ سکتے۔ چھتیں بھی ٹوٹ گئی ہیں۔ یہ سارے گھر رہنے کے قابل نہیں رہے۔ ہم سب وادی میں مختلف کیمپوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔‘

مشرقی افغانستان میں ہزاروں لوگ اب غیر یقینی مستقبل کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ وہ وادی میں لگائے گئے عارضی خیموں میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں زلزلے کی وجہ سے 5 ہزار سے زیادہ گھر تباہ ہوئے اور کم از کم 2 ہزار 200 افراد ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ تقریباً آدھے ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

نورگل کے پہاڑی گاؤں ایریت سے محمد خادر نے اپنے خاندان اور پڑوسیوں کے ساتھ محفوظ مقام تک پہنچنے کے لیے چھ گھنٹے سے زیادہ پیدل سفر کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمارا گاؤں بہت دور ہے، پہاڑوں کے اوپر اور زلزلہ بہت شدید تھا۔ وہاں پناہ لینے کی جگہ نہیں تھی۔ کسی گھر پر چھت باقی نہیں رہی۔ وہاں کوئی انسان نہیں رہ سکتا۔ لیکن اگر حکومت ہماری مدد کرے اور گاؤں کی دوبارہ تعمیر کرے، تو ہم ضرور واپس جائیں گے۔‘

حکام نے ہنگامی صورتحال کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ 2021 میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد جو ٹرک وہاں چھوڑے گئے تھے، انہیں امدادی سامان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
وزارتِ اطلاعات و ثقافت کے صوبائی ڈائریکٹر نجیب اللہ حقانی کے مطابق حکومت تین مرحلوں پر مشتمل منصوبہ پر عمل کر رہی ہے: خطرے میں رہنے والے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا، کیمپوں میں خوراک، پناہ اور طبی سہولیات فراہم کرنا اور آخر میں خاندانوں کی دوبارہ تعمیر یا مستقل رہائش میں مدد کرنا۔

لیکن گاؤں کے رہائشیوں نے کہا کہ خیمے سخت اور سردیوں سے حفاظت نہیں کر سکتے۔
دیوا گل وادی کے گاؤں گگیزو کے 37 سالہ کسان عزیز خان نے کہا کہ ان کے علاقے کے ہر گھر کو نقصان پہنچا ہے۔

عزیز خان نے کہا کہ ’اب بھی آفٹر شاکس آ رہے ہیں اور جو گھر بچ گئے ان کے گرنے کا خطرہ ہے۔ ہم گھر دوبارہ تعمیر نہیں کر سکتے۔ ہم سب غریب کسان ہیں۔ ہم اپنی حکومت اور بین الاقوامی برادری سے درخواست کرتے ہیں کہ ہماری مدد کریں، یا ہمیں مستقل رہائش فراہم کرنے میں مدد کریں۔ گھر کے اندر ہم سردیوں میں آگ جلا کر گرم رہ سکتے ہیں، لیکن خیمے میں ہم کیسے گرم رہیں گے؟‘
صوبہ کنڑ کے گورنر مولوی قدرت اللہ نے کہا کہ چندے کی رقم تعمیر نو کے لیے استعمال کی جا رہی ہے اور این جی اوز اور نجی عطیہ دہندگان کی جانب سے مزید مدد کے وعدے کیے گئے ہیں۔

گورنر مولوی قدرت اللہ نے کہا کہ ’تعمیر نو کے تیسرے مرحلے کے لیے ہمیں بین الاقوامی برادری اور این جی اوز کی حمایت درکار ہے۔ ہم نے ان سے پہلے ہی بات کی ہے۔ کچھ این جی اوز نے سروے شروع کر دیا ہے اور اس کے بعد وہ فزیبیلٹی اسٹڈیز کریں گے۔ انہوں نے صحت، تعمیر نو، تعلیم، پانی کی فراہمی اور دیگر ضروری خدمات میں مدد کرنے کے وعدے کیے ہیں۔