زیلنسکی کو بُلا کر پوتن غائب: روس یوکرین کے درمیان استنبول میں شروع ہونے والے امن مذاکرات میں کیا کچھ ہوا؟

08:1816/05/2025, Cuma
جنرل16/05/2025, Cuma
ویب ڈیسک
زیلنسکی انقرہ میں پوتن کا انتظار کرتے رہے لیکن پوتن آئے ہی نہیں
تصویر : نیوز ایجنسی / روئٹرز
زیلنسکی انقرہ میں پوتن کا انتظار کرتے رہے لیکن پوتن آئے ہی نہیں

ترکیہ کا شہر استنبول ایک بار پھر اہم سفارتی سرگرمیوں کا مرکز بنا جہاں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ختم کرنے کے لیے امن مذاکرات ہوئے۔

جمعرات کو روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے ترکیہ میں یوکرینی صدر زیلنسکی سے براہِ راست ملاقات کرنے کی دعوت مسترد کر دی تھی اور اس کے بجائے امن مذاکرات کے لیے کم سطح کا وفد بھیجا جس پر زیلنسکی نے کہا کہ روسی وفد میں کوئی ایسا شخص شامل نہیں جو اصل فیصلے کرتا ہو۔

روس اور یوکرین کے درمیان 2022 کے بعد تین سال بعد پہلی بار براہِ راست امن مذاکرات ہونے جا رہے ہیں جس کی میزبانی ترکیہ کررہا ہے، لیکن ان مذاکرات سے امیدیں بہت کم لگائی جارہی ہیں۔


زیلنسکی کی اردوان سے ملاقات

جمعرات کو یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی جمعرات کو انقرہ پہنچے جہاں انہوں نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کی۔ اس کے بعد انہوں نے تصدیق کی کہ یوکرین ان مذاکرات میں شرکت کرے گا۔

زیلنسکی نے ترکیہ کے کردار کو سراہا اور کہا کہ صدر اردوان سے ہونے والی ملاقات میں اہم گفتگو ہوئی۔

صدر اردوان نے زیلنسکی سے ملاقات کے بعد کہا کہ ترکیہ بات چیت میں سہولت کاری جاری رکھے گا اور جب روس اور یوکرین کے صدور تیار ہوں گے، تو ترکیہ ان کی ملاقات کی میزبانی بھی کرے گا۔ انہوں نے اس لمحے کو امن کے لیے تاریخی موقع قرار دیا۔

ترکیہ کے شہر انطالیہ میں نیٹو وزرائے خارجہ کی غیر رسمی ملاقات کے بعد وزیر خارجہ فیدان نے روسی وفد سے ملاقات کی، جس کے بعد ترک وزارت خارجہ نے جمعہ کے مذاکرات کی تصدیق کی۔


روس مذاکرات میں سنجیدہ نہیں، زیلنسکی

زیلنسکی نے کہا کہ پوتن نے خود ملاقات میں حصہ لینے کے بجائے صرف ’دکھاوے‘ کے لیے کم سطح کا وفد بھیج دیا جو کوئی فیصلے نہیں کرسکتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوتن جنگ ختم کرنے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔

دوسری طرف روس نے یوکرین پر الزام لگایا کہ وہ مذاکرات کو محض ایک ’نمائشی شو‘ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

زیلنسکی نے یہ بھی کہا کہ ’یہ ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم بار بار روسی صدر کو منائیں۔ اگر وہ امن چاہتے ہیں تو خود بات چیت کے لیے سنجیدگی دکھائیں‘۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس نے سنجیدگی نہیں دکھائی، نہ ملاقات کا وقت طے کیا، نہ ایجنڈا دیا اور نہ ہی کوئی اعلیٰ سطحی وفد بھیجا۔ یہ نہ صرف ہماری بے ادبی ہے بلکہ ترکیہ کے صدر اردوان اور امریکی صدر ٹرمپ کی بھی۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ روس سنجیدہ نہیں ہے، اس لیے وہ خود بھی مذاکرات کا حصہ نہیں ہوں گے بلکہ وہ جنگ بندی پر بات چیت کے لیے اپنے وفد کو استنبول بھیجیں گے۔

زیلنسکی کے جاری کردہ ایک حکم نامے کے مطابق یوکرین کے وفد کی قیادت وزیر دفاع رستم عمرُوف کریں گے اور اس وفد میں خفیہ اداروں کے نائب سربراہان، فوج کے جنرل اسٹاف کے نائب سربراہ، اور نائب وزیر خارجہ بھی شامل ہوں گے۔

یوکرین چاہتا ہے کہ فوری اور بغیر کسی شرط کے 30 دن کی جنگ بندی کی جائے، لیکن روسی صدر پوتن کا کہنا ہے کہ وہ پہلے مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیں جن میں اس جنگ بندی کی تفصیلات طے کی جائیں۔

روس کے حملے کے تین سال بعد آج روس کو میدان جنگ میں برتری حاصل ہے اور روس کا کہنا ہے کہ اگر جنگ بندی ہوئی تو یوکرین اس کا فائدہ اٹھا کر مزید فوجی بھرتی کر سکتا ہے اور مغرب سے مزید ہتھیار حاصل کر سکتا ہے۔


پوتن میرے بغیر مذاکرات میں شریک نہیں ہوں، ٹرمپ

ٹرمپ اور پوتن دونوں کئی ماہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے ملاقات کے خواہش مند ہیں، لیکن ابھی تک کسی ملاقات کی تاریخ طے نہیں کی گئی۔

ٹرمپ نے فروری میں وائٹ ہاؤس میں زیلنسکی کے ساتھ سخت رویہ اپنایا تھا اور یوکرین پر دباؤ بڑھایا تھا، اب وہ اس بات پر جھنجھلاہٹ کا اظہار کر رہے ہیں کہ شاید پوتن ’ٹال مٹول‘ سے کام لے رہے ہیں۔

ٹرمپ نے ایئر فورس ون پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک میری اور پوتن کی ملاقات نہیں ہوتی، تب تک کچھ ہونے والا نہیں۔‘


روسی وفد

ان مذاکرات سے کوئی امید نہیں ہے، مارکو روبیو

جس پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے نے کہا کہ میرا اندازہ ہے کہ جب تک صدر ٹرمپ اور صدر پوتن براہِ راست اس معاملے پر بات نہیں کرتے، تب تک کوئی بڑی پیش رفت ممکن نہیں ہے۔

ترک وزارتِ خارجہ کے مطابق جمعہ کو استنبول میں روس، یوکرین، امریکہ اور ترکیہ کے وفود کے درمیان کئی اہم ملاقاتیں متوقع ہیں۔

امریکہ، یوکرین اور ترکیہ کے نمائندوں کے درمیان بات چیت ہوگی۔ اسی طرح روس، یوکرین اور ترکیہ بھی ملاقات کریں گے۔

ترک وزیر خارجہ حقان فیدان، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، یوکرینی وزیر دفاع رستم عمرواور روسی صدر کے معاون ولادیمیر میدنسکی کی میزبانی کریں گے۔

امریکی وزیر خارجہ روبیو نے موجودہ مذاکراتی صورتحال کو ایک ’بند گلی‘ یا ’رکاوٹوں سے بھرا عمل‘ قرار دیا ہے، اور کہا کہ وہ ترکیہ کے وزیر خارجہ اور یوکرینی وفد سے ملاقات کے لیے جمعہ کو استنبول جائیں گے۔

یہ ساری سفارتی الجھنیں (یعنی مذاکرات کا نہ ہونا، وفود کا نہ پہنچنا) اس وجہ سے بھی ہیں کہ فریقین کے درمیان تعلقات بہت کشیدہ ہیں اور ٹرمپ کی اچانک اور غیر متوقع مداخلت ان معاملات کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔

زیلنسکی انقرہ میں پوتن کا انتظار کرتے رہے لیکن پوتن آئے ہی نہیں اور جب روسی وفد استنبول کے دولما بہچے محل پہنچا، تو وہاں ان سے بات کرنے کے لیے یوکرین کا کوئی وفد موجود نہیں تھا۔ وہیں پر تقریباً 200 صحافی وہاں موجود تھے، لیکن کوئی مذاکرات نہ ہو سکے۔




#روس یوکرین جنگ
#ترکیہ
#امریکا
#ڈونلڈ ٹرمپ