
فلسطین کی معیشت اپنی تاریخ کی بدترین تباہی کا شکار ہے، جس کی بڑی وجہ غزہ پر اسرائیل کی تباہ کن جنگ اور نقل و حرکت اور تجارت پر مسلسل پابندیاں ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی نئی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دو سال اور پرانی پابندیوں کی وجہ سے فلسطین کی معیشت 1960 کے بعد دنیا کی دس سب سے بدترین معاشی بحرانوں میں شامل ہو گئی ہے۔رپورٹ میں غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انفراسٹرکچر، کاروبار اور سرکاری سہولتوں پر شدید تباہی کی وجہ سے قابض فلسطینی علاقے میں برسوں کی سماجی و معاشی ترقی رُک گئی ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ غزہ اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی بحران کا شکار ہے۔
یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چھ ہفتے کی جنگ بندی کے باوجود اسرائیل کے غزہ پر حملے جاری ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، پچھلے سال تک فلسطین کی معیشت 2010 کی سطح پر واپس آ گئی تھی اور ہر فرد کی آمدنی 2003 کی سطح پر آ گئی، یعنی دو سال میں 22 سال کی ترقی ختم ہو گئی۔ غزہ میں 2024 میں معیشت 83 فیصد گری اور دو سال میں 87 فیصد کم ہو کر 362 ملین ڈالر رہ گئی۔ ہر فرد کی آمدنی صرف 161 ڈالر ہے، جو دنیا میں سب سے کم ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دو دہائیوں سے پابندیوں کی وجہ سے فلسطینی علاقے امداد پر منحصر ہیں اور اسرائیلی حملوں نے غزہ میں تقریباً ایک لاکھ 74 ہزار 500 عمارتیں تباہ کر دی ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف غزہ کی تعمیر نو اور بحالی پر 70 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ آئے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی مدد کے ساتھ ایک مکمل بحالی منصوبہ بنایا جائے، مالی وسائل کی بحالی کی جائے اور تجارت، نقل و حرکت اور سرمایہ کاری پر پابندیوں کو فوری طور پر کم کیا جائے۔






