
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کی شام ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا، جس میں ایجنسیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اخوان المسلمون کے کچھ دھڑوں کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دینے کے باضابطہ عمل کا آغاز کریں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز ایک ایگزیکٹو حکم نامے پر دستخط کیے، جس کے تحت اخوان المسلمون کے بعض دھڑوں کو ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں‘ قرار دینے کے اقدامات شروع کیے جائیں گے۔
یہ قدم عرب دنیا کی قدیم ترین اور بااثر اسلامی تحریکوں میں سے ایک پر پابندیاں عائد کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
ایگزیکٹو حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’یہ حکم اس عمل کا آغاز کرتا ہے جس کے تحت اخوان المسلمون کے بعض دھڑوں یا ذیلی گروہوں کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا جائے گا‘ اور اس میں خاص طور پر لبنان، مصر اور اردن میں اخوان المسلمون کی شاخوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دھڑے ’تشدد کے واقعات میں ملوث تھے یا ان کی حمایت کی ہے اور ایسی عدم استحکام پیدا کرنے والی کارروائیوں میں ملوث ہیں جو امریکی شہریوں اور امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچاتی ہیں۔‘
اس فیصلے کا کیا مطلب ہے؟
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور وزیرِ خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اخوان المسلمون کی اُن شاخوں کے بارے میں رپورٹ پیش کریں (مثلاً لبنان، مصر اور اردن میں موجود شاخیں) جنہیں ’دہشت گرد‘ تنظیموں کے طور پر نامزد کیا جا سکتا ہے۔
آرڈر کے مطابق دونوں وزراء کو رپورٹ جمع ہونے کے 45 دن کے اندر ان گروہوں کی درجہ بندی کے حوالے سے اگلے اقدامات کرنا ہوں گے۔
روئٹرز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے اخوان المسلمون کی ان شاخوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے شراکت داروں کے خلاف حملوں کی حمایت یا حوصلہ افزائی کرتی ہیں، یا فلسطینی مسلح گروہ حماس کو مالی مدد فراہم کرتی ہیں۔
امریکہ کی جانب سے اخوان المسلمون کو ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دینے سے واشنگٹن اس تنظیم کے خلاف سخت اقدامات کرسکتا ہے، جیسے کہ امریکہ میں موجود اُن کے اثاثے منجمد کرنا اور ان کے ارکان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگانا شامل ہے۔
اب امریکی صدر کے حکم کے بعد، وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور وزیرِ خزانہ اسکاٹ بیسنٹ پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اخوان المسلمون کی ان شاخوں پر پابندی کے عمل کو مکمل کریں جن کا ذکر ایگزیکٹو آرڈر میں کیا گیا ہے۔
یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ اخوان المسلمون کئی ممالک میں موجود ہے۔ یہ تنظیم 1928 میں مصر میں حسن البنّا نے قائم کی تھی اور بعد میں یہ عرب دنیا کے دیگر ممالک تک پھیل گئی۔
شروع میں اخوان کا مقصد صرف اسلامی اخلاق سکھانا تھا، لیکن کچھ ہی وقت بعد یہ سیاست میں بھی شامل ہو گئی۔ پھر یہ مصر میں برطانوی قبضے اور ہر طرح کے مغربی اثرات کے خلاف سرگرم ہونے لگی۔ اپنی سیاست اور فلاحی کاموں کی وجہ سے اس تنظیم نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو بھی متاثر کیا۔
اخوان المسلمون کو کئی ممالک میں پابندی کا سامنا ہے، جن میں سعودی عرب اور مصر شامل ہیں۔ حال ہی میں اردن نے بھی اس سال اپریل میں اس تنظیم پر پابندی لگائی تھی۔
مصر پہلے ہی اخوان المسلمون کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے چکا ہے۔ 2013 میں جب فوج نے صدر محمد مرسی کو ہٹایا اور عبدالفتاح السیسی اقتدار میں آئے، تو اس جماعت کو سیاسی منظرنامے سے مکمل طور پر باہر کر دیا گیا۔
مئی میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ ’اخوان المسلمون‘ کے اثر و رسوخ سے نمٹنے کے لیے تجاویز تیار کرے۔ یہ اقدام اُن رپورٹس کے بعد سامنے آیا جن میں خبردار کیا گیا تھا کہ یہ تنظیم فرانس کی قومی یکجہتی کے لیے ’خطرہ‘ بن سکتی ہے۔






