
ترکیہ کے کمیونیکیشنز ڈائریکٹوریٹ نے ایک کتاب شائع کی ہے جس میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے صحافیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔
یہ کتاب 'سچ کا قتل - صحافت کے خلاف اسرائیلی مہم' کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ کمیونیکیشنز ڈائریکٹوریٹ کے بدھ کو جاری بیان کے مطابق کتاب ترک، انگلش اور عربی زبان میں دستیاب ہے۔
کتاب میں غزہ میں صحافیوں کو اسرائیل کی جانب سے منظم انداز میں نشانہ بنانے کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بالخصوص اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ میں صحافیوں کو نشانہ بنانے، مواصلات کے ڈھانچے کو جان بوجھ کر تباہ کرنے اور سچ سامنے لانے والی آوازوں کو دبانے کی کوششوں کو تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے۔
غزہ میں صحافیوں کے گھروں پر بمباری اور ان کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنانے کے واقعات بھی کتاب میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان 283 صحافیوں کی زندگی کی کہانی بھی بیان کی گئی ہے جو اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے دوران اسرائیل کے ہاتھوں مارے گئے۔
بیان کیے گئے تمام واقعات اور دعوؤں کو مربوط شواہد اور گواہوں کے بیانات سے تقویت دی گئی ہے۔ کتاب کا پیش لفظ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے تحریر کیا ہے۔
'اسرائیل سچ کو بے نقاب کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بنا رہا ہے'
پیش لفظ میں صدر اردوان نے لکھا ہے کہ انسانی تاریخ نے ہمیشہ تنازعات اور جنگیں دیکھی ہیں اور ان تنازعات کے بارے میں معلومات اب آج کے دن تک پہنچ گئی ہیں کیوں کہ انہیں محفوظ کیا جاتا رہا ہے۔
صدر اردوان نے حقائق کو دستاویزی شکل دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ کو محفوظ کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا اسے بنانا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے وقت میں جب مستقل رونما ہونے والے واقعات دنیا کا نظام بدل سکتے ہیں، پریس ورکر جو حقائق کو سامنے لاتے اور انہیں محفوظ کرتے ہیں، وہ صرف آج کے واقعات کو درست انداز میں لوگوں تک نہیں پہنچا رہے ہوتے بلکہ ان واقعات کو مستقبل کے لیے محفوظ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ پریس ارکان جو تاریخی معلومات کو محفوظ کرنے اور سچ لوگوں تک پہنچانے کا کام بے تھکان کرتے ہیں، ریاستوں کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ ان کے لیے یقینی بنائے کہ وہ اپنی ذمے داریاں بحفاظت ادا کر سکیں۔ بالخصوص تنازعات اور جنگ زدہ علاقوں میں۔ صدر اردوگان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں ریاستیں اپنی یہ ذمے داری ادا کرنے میں ناکام ہوتی ہیں، وہاں سچ پہنچانا اور جاننا ناممکن ہوجاتا ہے۔
صدر اردوگان نے کہا کہ اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی پر عالمی برادری نے جو ردعمل دیا وہ بذاتِ خود اس حقیقت کا ثبوت ہے جو ہم دکھانا چاہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نہ صرف اجتماعی سزاؤں اور قبضے کے ذریعے لوگوں کو قتل کر رہا ہے اور پھر وہ ایسے ظاہر کر رہا ہے کہ جیسے یہ قتلِ عام ہوا ہی نہیں۔ وہ عالمی برادری کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جو وہ غزہ میں کر رہا ہے وہ عام سی بات ہے۔ اور اس مقصد کے لیے اسرائیل ان صحافیوں کو نشانہ بنا رہا ہے جو اس کے بنائے گئے مؤقف کے پیچھے چھپے سچ کو بے نقاب کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل جنگوں کے تمام اصولوں اور انسانی قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے صحافیوں کے گھروں تک پر حملے کر رہا ہے اور ان کے اہلِ خانہ کو سزا دے رہا ہے۔ صدر اردوان کے بقول اسرائیل کے یہ اقدامات غزہ میں صحافیوں سے صرف آزادی صحافت نہیں بلکہ ان کے زندہ رہنے کا بنیادی حق بھی چھین رہے ہیں۔
ترک صدر نے صحافیوں کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ یقینی بنانے کے لیے کام کرتے رہیں گے کہ غزہ کے صحافیوں نے جس سچ کو بے نقاب کیا ہے اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اسے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔






