چند دن کے لیے سڑکوں پر احتجاج، کارکنان کے نعرے، صحت اور تعلیم میں اصلاحات کے مطالبات، کچھ شہروں میں سرکاری عمارتوں میں آگ اور گرفتاریاں۔۔۔۔ عالمی میڈیا جب مراکش پر رپورٹ کررہے تھے تو احتجاج پہلے ہی پولیس مداخلت کے ذریعے کم ہو چکا تھا۔ جو لوگ خطے پر گہری نظر رکھتے ہیں، انہوں نے پہلے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ ایسے مظاہرے مراکش جیسے ملک میں زیادہ بڑھنے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں گے۔
اٹلانٹک اور بحیرہ روم کے درمیان واقع اور افریقہ کے اندرونی علاقوں اور یورپ کے ساتھ مضبوط رابطے رکھنے والا مراکش اسلامی دنیا کے سب سے منفرد ممالک میں سے ایک ہے۔ سیاحتی طور پر دلکش اور مستند، سماجی طور پر متحرک اور رنگین اور سیاسی طور پر اپنی منفرد توازن کی بنیاد پر قائم۔
مراکش کے بادشاہ کا ملک کے اندر کافی اثر و سوخ ہے۔ موجودہ خاندان، جو 1600 کی صدی کے پہلے نصف میں قائم ہوا، صدیوں کے تغیرات اور جدید خیالات کے اثرات کے باوجود عوام انہیں احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔
البتہ، اس تعظیم کے پیچھے ایک منظم ریاستی نظام ہے: مذہبی گروپوں اور ریاست کے درمیان مفاد پر مبنی تعلقات، مساجد پر سخت کنٹرول، پورے ملک میں خفیہ اطلاع دہندگان کا نیٹ ورک، اور پولیس پر اختیارات—یہ سب بادشاہت کے زیر انتظام بخوبی چلائے جاتے ہیں۔
عوام کے قریب رہنے کے لیے شاہی انتظامیہ مذہبیت کے مظاہروں پر زور دیتی ہے۔ اس سلسلے میں، ملک بھر میں موجود خانقاہوں اور صوفی مراکز کی فراخ دلانہ حمایت، میلاد النبی ﷺ کی ولادت کے جشن کے موقع پر شاہی خاندان کے افراد کی مساجد میں موجودگی، تراویح اور عید کی نمازوں کی عوامی نمائش اور رمضان میں بادشاہ کی موجودگی میں دی جانے والی دینی درسیں (جنہیں ’دروس حسنیہ‘ کہا جاتا ہے) نیز بادشاہ کا خود عید الاضحیٰ کی قربانی دینا، یہ سب عوام پر نمایاں اثر ڈالنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
چونکہ مراکش کے بادشاہان حکومت چلانے اور عوامی پیغام رسانی میں ماہر ہیں، عموماً وہ ’ناپسندیدہ کام‘ حکومت یا وزرائے اعلیٰ یا وزرا پر ڈال دیتے ہیں، یعنی ایسے کام جس سے عوام کی جانب سے شدید ردعمل آسکتا ہے۔ اس طرح عوام کی ناراضگی حکومت پر مرکوز ہوتی ہے، جبکہ بادشاہ اپنی ’عاقل رہنما‘ اور ’جھگڑوں میں ثالث‘ کا کردار ادا کرنے کی حیثیت برقرار رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر، 22 دسمبر 2020 کو مراکش اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے کا معاہدہ اُس وقت کے وزیر اعظم سعد الدین العثمانی نے رباط میں کیا۔ نہ کہ بادشاہ محمد ششم۔ عثمانی، جو بربر نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور اسلامی انصاف و ترقی پارٹی کے سربراہ ہیں، اس معاہدے کا چہرہ بن گئے اور اسرائیل کی رسمی پہچان کے لیے عوامی ردعمل برداشت کیا۔ اس طرح بادشاہ نے اسلام پسند جماعتوں کے برسوں پر محیط بیانیے کو مؤثر طریقے سے کمزور کر دیا۔ بعد میں وزیر اعظم عثمانی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا اور بادشاہ نے اس کی جگہ مخزن کے اہم رکن اور ارب پتی کاروباری شخصیت عزیز اخنوش کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔
اس سیاسی نظام میں بادشاہ کی پیرس میں لیک شدہ ویڈیوز، شاہی خاندان کی ذاتی زندگی کے بارے میں سوالات، یا سابق ملکہ للا سلمى بنانی کے طلاق کے بعد خود کو الگ کر لینے کی وجوہات عوام میں بڑے ردعمل یا بادشاہت پر اعتماد کو متاثر کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔
چونکہ بادشاہ کی صحت تیزی سے خراب ہو رہی ہے، اس لیے توقع کی جارہی ہے ان کے بیٹے مولائی حسن ان کے جانشینی ہوں گے اور ’حسن III‘ کے طور پر تخت سنبھالیں گے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ نوجوان ولی عہد، جو 2003 میں پیدا ہوئے، اپنے والد اور دادا کے قائم کردہ مضبوط نظام کو کس حد تک کامیابی سے چلا پائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔