افغانستان میں داخل ہونا آسان ہے مگر نکلنا مشکل، کیا طالبان پشتون قوم پرست ہیں؟ انہوں نے اتنا مشکل مسئلہ کیسے حل کر لیا؟

13:5419/08/2025, Salı
جنرل20/08/2025, Çarşamba
یاسین اکتائے

طالبان، جو آج افغانستان میں حکومت کر رہے ہیں، اپنے وطن کے دفاع کا 48 سالہ ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ تجربہ قربانیوں، شہادتوں، غازیوں، اسٹریٹجک اور جنگی حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ صبر اور استقامت سے حاصل ہوا ہے۔ ایسی کون سی سوچ، جذبہ یا ابن خلدون کے الفاظ میں ’عصبیہ‘ تھا، جس نے ان لوگوں کو اتنا پختہ کر دیا کہ انہوں نے پہلے روس اور پھر امریکہ کو افغانستان میں مداخلت پر پچھتانے پر مجبور کر دیا اور اور انہوں نے اپنی آزادی کے معاملے پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا؟ جب آپ انہیں قریب سے دیکھتے ہیں تو واضح ہو

طالبان، جو آج افغانستان میں حکومت کر رہے ہیں، اپنے وطن کے دفاع کا 48 سالہ ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ تجربہ قربانیوں، شہادتوں، غازیوں، اسٹریٹجک اور جنگی حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ صبر اور استقامت سے حاصل ہوا ہے۔ ایسی کون سی سوچ، جذبہ یا ابن خلدون کے الفاظ میں ’عصبیہ‘ تھا، جس نے ان لوگوں کو اتنا پختہ کر دیا کہ انہوں نے پہلے روس اور پھر امریکہ کو افغانستان میں مداخلت پر پچھتانے پر مجبور کر دیا اور اور انہوں نے اپنی آزادی کے معاملے پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا؟ جب آپ انہیں قریب سے دیکھتے ہیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی اصل طاقت انہیں مذہب سے ملتی ہے۔ ایسی سوچ جو نہ کسی جدید نظریے سے متاثر ہے نہ کسی سیاسی سوچ سے۔ بلکہ ان کا جذبہ خالص مذہبی بنیاد پر ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے لیبیا کے شیر عمر مختار نے 95 سال پہلے اپنے دشمن اطالوی کمانڈر کو کہا تھا، ویسے ہی طالبان بھی بار بار اپنے مخالفین کو کہتے رہے: ہماری تم سے لڑائی اس لیے ہے کہ ہمارا دین ہمیں اس کا حکم دیتا ہے۔ کیوں کہ تم قبضہ کرنے آئے ہو اور تم مسلمانوں کی سرزمین پر قابض ہو کر یہاں اپنی بے راہ روی مسلط کرنا چاہ رہے ہو۔ تم کہتے ہو کہ ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے کیوں کہ تم طاقت ور ہو اور سپر پاور ہو۔ لیکن ہمارے لیے جیت یا ہار کا فیصلہ کرنے والے تم کوئی نہیں۔ ہم تم سے لڑیں گے اور سو سال تک بھی لڑتے رہیں گے۔ اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم اتنا لڑ سکتے ہو تو آؤ، رہو یہاں۔ مگر یاد رکھنا کہ جتنی دیر بھی رہ لو، تم ہمیں ہرا نہیں سکو گے۔

طالبان کے اس مؤقف نے بہت جلد امریکہ اور نیٹو افواج کو مایوس کر دیا۔ کچھ ہی وقت میں وہ کابل کے چند مخصوص علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے اور شروع سے ہی وہ واپسی کا راستہ تلاش کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ طالبان کے بارے میں تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ وہ جاہل ہیں۔ لیکن یہی وہی گروپ ہے جس نے حیرت انگیز جنگی حکمتِ عملی اور کامیابیوں کے ذریعے امریکہ جیسی سپر پاور کو بھی خوف زدہ کر دیا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان کا تو مطلب ہی ’علم کے طلب گار‘ ہے۔ یہ وہی طالبان ہیں جنہیں بعض لوگ ناپسند بھی کرتے ہیں مگر انہوں نے منشیات کے مسئلے کو ایسے حل کیا جو اتنے کم وقت میں کوئی اور طاقت نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے ایسا معاشرتی امن قائم کیا جو کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔ اور انہوں نے پورے افغانستان میں ایک ایسا سیکیورٹی نظام قطالبان کے اس مؤقف نے امریکہ اور نیٹو افواج کو بہت جلد مایوس کر دیا۔ کچھ ہی وقت میں وہ کابل کے چند مخصوص علاقوں ائم کیا جو اس ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ہم نے ان سب باتوں کی مختلف ذرائع سے کئی بار جانچ کر کے تصدیق کی ہے۔ پچاس سال میں پہلی مرتبہ افغانستان میں لوگ پورے ملک میں آزادی سے اور کسی سیکیورٹی کے مسئلے کے بغیر سفر کر سکتے ہیں۔

جب ہم یہ سب باتیں کرتے ہیں تو ہمارا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ افغانستان ایک مکمل طور پر ترقی یافتہ اور جدید ملک بن گیا ہے اور ہر تاریخی و ثقافتی مسئلے سے آزاد ہو گیا ہے۔ بلکہ ہمارا زور طالبان کی اس غیر معمولی کارکردگی پر ہے کہ اسلامی امارت نے مختصر وقت میں کچھ ایسے بڑے مسائل کو حل کیا ہے جو کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔ طالبان نے گزشتہ 20 سال تک پہاڑوں میں یا زیر زمین رہ کر قابض قوتوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑی ہے۔ وہ نہایت مشکل حالات میں مزاحمت کرتے رہے۔ اس عرصے میں ان کے پاس یہ سہولت ہی نہیں تھی کہ وہ ایک ایسی تربیت یافتہ ٹیم تیار کر سکیں جو ریاست کو پیشہ ورانہ انداز میں چلا سکے اور یہ ممکن بھی نہیں تھا۔ اسی لیے اب جب وہ اقتدار میں آئے ہیں تو حکومت کے کئی معاملات، حتیٰ کہ معمولی معاملات میں بھی، انہیں مسائل کا سامنا ہے۔ وہ ابھی تک مکمل طور پر ایسی بیوروکریسی قائم نہیں کر سکے جو ریاستی نظام کو مؤثر طریقے سے چلا سکے۔ لیکن اسی کمی میں ان کے لیے ایک فائدہ بھی چھپا ہوا ہے۔ کیوں کہ بیوروکریسی کی پیچیدگیوں سے آزاد ہونے کی وجہ سے وہ فیصلے تیزی سے کر سکتے ہیں۔ وہ اس وقت نئے نظام کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور وہ اس مرحلے میں بہت سے معاملات کو بیوروکریٹک تاخیر سے بچا کر تیزی سے نمتا سکتے ہیں۔ البتہ ملک کو اب بھی کئی بڑے مسائل کا سامنا ہے جنہیں حل کیا جانا باقی ہے۔

ہم نے دوستی پر اپنی کتاب کا عربی ایڈیشن افغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کو پیش کیا۔ کابل کی گلیوں اور سڑکوں پر جو صفائی کا معیار ہم نے دیکھا وہ دوسرے مشرقی ملکوں کے مقابلے میں بے مثال تھا۔ یہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہاں بلدیاتی نظام مؤثر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ جب ہم نے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ یہ بھی طالبان کی ترجیحات میں شامل شعبوں میں سے ایک ہے۔ پہلے جب صفائی کے بڑے منصوبے چلائے جاتے تھے تو وہ پیچھے صرف کوڑا کرکٹ اور آلودگی کے ڈھیر چھوڑ جاتے تھے۔ اب نہایت کم خرچ میں ایسی صفائی کی جاتی ہے کہ شہر صاف ستھرا اور منظم دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح، بہت سے سڑکوں اور انفراسٹرکچر کے منصوبے جو پہلے ادھورے چھوڑ دیے گئے تھے یا شروع ہی نہیں ہو سکے تھے، اب تیزی سے مکمل کیے جا رہے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں صرف چار سال کے اندر ایک قابلِ ذکر معاشی استحکام قائم ہو چکا ہے۔ جب اسلامی امارت نے اقتدار سنبھالا، اُس وقت ڈالر کی قیمت 130 افغانی کے قریب تھی۔ لیکن جلد ہی یہ گھٹ کر 65 سے 70 افغانی کے درمیان آ گئی اور تب سے اب تک اسی سطح پر برقرار ہے۔ اس دوران مہنگائی کی شرح تقریباً صفر کے قریب ہے۔ ہماری ملاقات کے دوران وزیر خارجہ امیر خان متقی نے یہ دعویٰ کیا کہ اس وقت افغانستان دنیا کا سب سے سستا ملک ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ’دوستی پر‘ کا عربی ایڈیشن افغانستان کے وزیرِ تجارت نورالدین عزیزی کو بھی پیش کیا۔ اس موقع پر ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ معاشی استحکام کیسے قائم کیا، ڈالر کی قدر کس طرح کم کی اور پھر اسے برقرار رکھا اور یہ سب کچھ جنگ کے بعد کی بدحالی اور عالمی پابندیوں کے باوجود کیسے ممکن ہوا؟ اس پر انہوں نے ایک دلچسپ تجزیہ اور کئی اہم نکات پیش کیے۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے ہم نے ملک میں ڈالر میں لین دین کو روک دیا۔ پہلے 90 فیصد تجارت ڈالر میں ہوتی تھی، اب 95 فیصد لین دین افغانی کرنسی میں ہو رہا ہے۔ ہم نے کرنسی کو ایک تجارتی چیز بننے سے بھی روکا ہے یعنی اب کوئی افغانی پر سٹے بازی یا چالاکی سے منافع حاصل نہیں کر سکتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نے بدعنوانی کا خاتمہ کیا اور سرکاری اخراجات کو کم سے کم سطح پر لے آئے۔ ان اقدامات کی بدولت اب وہ مسائل بھی حل ہو رہے ہیں جو پہلے بڑے بجٹ ہونے کے باوجود حل نہیں ہو پاتے تھے اور ساتھ ہی اب کئی نئے منصوبے بھی بآسانی شروع کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے جب اس موضوع پر چند مثالیں پیش کیں تو وہ بھی طالبان کی اُن ’ناممکن‘ پالیسیوں کا عملی مظہر تھیں جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ ماضی میں کسی بھی صوبے کے گورنر کی تنخواہ اور اخراجات کبھی بھی 40 سے 50 ہزار ڈالر ماہانہ سے کم نہیں ہوتے تھے۔ اگر وہ کہیں سفر کرتا تو اس کے ساتھ 20 گاڑیوں کا قافلہ ہوتا۔ ب، وہی گورنر اپنی ذاتی گاڑی میں اکیلے دفتر جاتا ہے اور کچھ تو سائیکل پر بھی سفر کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہ ایک ہزار ڈالر سے بھی کم ہے۔ کئی اعلیٰ افسران اپنا کھانا گھر سے ٹفن میں لاتے ہیں۔ سب سے نمایاں مثال افغانستان کے موجودہ رہنما شیخ ہبت اللہ اخوندزادہ کی زندگی ہے، جنہوں نے کابل آ کر حکومتی محل میں بیٹھنے کے بجائے قندھار میں اپنے مدرسے میں رہنے کو ترجیح دی۔ وہ مکمل طور پر عوامی نظروں سے دور رہتے ہیں اور ظاہری شان و شوکت سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ طرزِ زندگی طالبان کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے نزدیک قیادت کسی نصیب کے انعام یا طاقت کی علامت نہیں بلکہ ایک بھاری ذمہ داری ہے جس کا روحانی پہلو بھی ہے۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایسا تصور جو ماضی میں بظاہر ناممکن تھا، یعنی ریاست اور اخلاق کا امتزاج، طالبان کی حکومت میں حقیقت بنتا دکھائی دیتا ہے۔

ادھر وزیرِ تجارت نورالدین عزیزی جو خود تاجک نسل سے تعلق رکھتے ہیں، طالبان حکومت میں ایک نہایت اہم عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ خود کو اُن لوگوں کے الزامات کے خلاف ایک زندہ مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں جو طالبان کو صرف پشتون قوم پرست گروہ قرار دیتے ہیں۔ وہ طالبان حکومت کے کئی اعلیٰ عہدوں پر غیر پشتون افراد کے نام گنواتے ہیں جن میں سے ایک اہم نام ازبک نائب وزیرِاعظم عبدالسلام حنفی کا ہے۔ ان مثالوں کے بعد اُن لوگوں کے پاس کوئی جواز باقی نہیں رہتا جو خود کو ازبک قوم کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں یا راشد دوستم جیسے کرداروں کے خواب دیکھتے ہیں۔ جنہیں آج صرف جنگی جرائم کی یاد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان راشد دوستم کو اہمیت ہی نہیں دیتے اور طالبان پر پشتون قوم پرستی کا الزام لگا کر جو جگہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ ناکام ہے۔ وزیرِ تجارت عزیزی واضح طور پر کہتے ہیں کہ طالبان کی حکومت کسی تنگ نظر قوم پرستی پر مبنی نہیں ہے۔ ان کے مطابق اسلامی امارت کے فیصلے تمام اقوام و اقلیتوں کی فلاح کو سامنے رکھ کر کیے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک کے تمام شہری، چاہے ان کا تعلق کسی بھی نسل یا قوم سے ہو، تجارت اور حکمرانی کے میدان میں برابر کے حقوق اور مواقع رکھتے ہیں۔ طالبان ذاتی یا نسلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ ان کی توجہ دینی اصولوں اور قومی مفاد پر مرکوز ہے۔ وزیرِ تجارت نے یہ بھی کہا کہ ان کا مقصد ایسی حکومت قائم کرنا ہے جو سیکیورٹی، معاشی استحکام، اور اخلاقی رہنمائی میں توازن قائم کرے۔


افغانستان کے دورے کے دوران ہم نے دیکھا کہ خواتین عوامی مقامات پر موجود ہیں۔ اگرچہ وہ دینی اصولوں کے مطابق پردے اور حدود کا خیال رکھتی ہیں۔ وہ اسپتالوں، اسکولوں، اور بعض دفاتر میں کام کر رہی ہیں جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ طالبان کی پالیسیوں میں خواتین کو شرکت کی اجازت ہے۔ بشرطیکہ وہ ان کی شریعت کی تشریح کی خلاف ورزی نہ کریں۔تعلیم کے حوالے سے ایک واضح اور مضبوط توجہ موجود ہے۔ تمام طبقات کے لیے تعلیم کو اہم سمجھا جاتا ہے، اور دینی مدارس کے ساتھ ساتھ جدید تعلیمی ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو متوازن ہوں۔

کابل اور دیگر بڑے شہروں میں سیکیورٹی کی صورتِ حال واضح طور پر بہتر نظر آتی ہے۔ جگہ جگہ چیک پوسٹس، گشت کرنے والی ٹیمیں اور فوری ردِعمل والے دستے مؤثر انداز میں نظم و ضبط قائم رکھے ہوئے ہیں۔ جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے اور اغوا اور ڈکیتی جیسے واقعات تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ اب ایسا تحفظ محسوس کرتے ہیں جو کئی دہائیوں سے ناپید تھا۔ حتیٰ کہ غیر ملکی افراد بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ طالبان حکومت میں وہ خود کو توقع سے کہیں زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

بین الاقوامی پابندیاں اب بھی ایک بڑا چیلنج ہیں لیکن طالبان نے ان کا متبادل راستہ تلاش کر لیا ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت جاری ہے اور ملکی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ زراعت سے متعلق پالیسیوں، مقامی صنعت کاری اور درآمدات کے نظم و نسق نے ایک ایسا خودکفیل نظام قائم کیا ہے جو مکمل طور پر بیرونی امداد پر انحصار نہیں کرتا۔ عالمی دباؤ اور مالی پابندیوں کے باوجود، افغان معیشت میں استحکام اور مزاحمت کی علامات نظر آ رہی ہیں جو ایک مضبوط داخلی نظام کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

ملاقاتوں کے دوران حکومتی عہدے داروں نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ صبر، دینی اصولوں سے وابستگی، اور عملی انداز میں مسائل کا حل ان کی حکمرانی کا بنیادی راستہ ہے۔ فیصلے اہم رہنماؤں کے مشورے سے کیے جاتے ہیں اور ان پر عمل درآمد میں رفتار اور ان کے مؤثر ہونے کو بیوروکریسی پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر کسی جگہ غلطی ہو جائے تو اسے جلد درست کیا جاتا ہے، اور حکومتی ڈھانچے کے اندر احتساب کا نظام بھی موجود ہے۔

آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگرچہ طالبان کے زیرِ انتظام افغانستان اب بھی مکمل طور پر مثالی نہیں لیکن سیکیورٹی، معاشی استحکام، طرزِ حکمرانی، اور سماجی نظم و ضبط میں جو بہتری آئی ہے، وہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ مسائل اب بھی موجود ہیں لیکن صرف چند سالوں میں جو تیز اور مؤثر اقدامات کیے گئے ہیں وہ قابلِ توجہ ہیں۔ جو بھی اس تحریک کو سمجھنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ صرف ظاہری تاثرات یا سنی سنائی باتوں پر نہ جائے، بلکہ ان کی پالیسیوں، مقاصد، اور عملی اقدامات کا بغور مشاہدہ کرے۔



نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، جس سے ینی شفق اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔


##افغانستان
##طالبان
##امریکہ