کیا فرانس اور برطانیہ فلسطین کو ریاست تسلیم کر لیں گے؟

14:5511/08/2025, Monday
جنرل12/08/2025, Tuesday
سِلچک ترکیلماز

فرانس اور برطانیہ نے حال ہی میں یکے بعد دیگرے یہ بیانات دیے کہ وہ فلسطین کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ مگر یہ اعلانات کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں اور بالخصوص ان ممالک کی ساکھ پر سوال اٹھتے ہیں۔ یہ شک و شبہ بالکل جائز ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہی دونوں ملک ماضی میں مشہور سائکس-پیکو معاہدے کے فریق تھے۔ یہ وہ معاہدہ تھا جس نے موجودہ دور کے بہت سے تنازعات کی بنیاد رکھی۔ اس معاہدے کے تحت سلطنتِ عثمانیہ کے علاقوں کو سرحدوں میں تقسیم کیا گیا اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بانٹ دیا گیا۔ اور اسی تقسیم نے اسرائیل

فرانس اور برطانیہ نے حال ہی میں یکے بعد دیگرے یہ بیانات دیے کہ وہ فلسطین کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ مگر یہ اعلانات کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں اور بالخصوص ان ممالک کی ساکھ پر سوال اٹھتے ہیں۔ یہ شک و شبہ بالکل جائز ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہی دونوں ملک ماضی میں مشہور سائکس-پیکو معاہدے کے فریق تھے۔ یہ وہ معاہدہ تھا جس نے موجودہ دور کے بہت سے تنازعات کی بنیاد رکھی۔ اس معاہدے کے تحت سلطنتِ عثمانیہ کے علاقوں کو سرحدوں میں تقسیم کیا گیا اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بانٹ دیا گیا۔ اور اسی تقسیم نے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی۔

برطانیہ نے اسرائیل کے قیام کے لیے 30 سال کوششیں کیں جب کہ فرانس نے اس نوآبادیاتی نظام کی مسلسل حمایت کی۔ یہی فرانس تھا جس نے اسرائیل کو ایٹمی ہتھیار فراہم کیے جن کی وجہ سے اسرائیل کو ایسا مقام مل گیا جہاں کوئی اسے چھو بھی نہ سکے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد، اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہو گئی اور اس نے فوراً توسیع کی پالیسی اپنا لی۔ اس کے بعد فلسطین کا مسئلہ صرف علاقائی تنازع نہیں رہا بلکہ انسانیت کا بحران بن گیا۔ بعد ازاں جرمنی نے بھی خوش دلی سے اس نوآبادیاتی منصوبے کو قبول کر لیا۔

ان مغربی طاقتوں نے اس نوآبادیاتی منصوبے کو ایک نظریاتی کہانی میں لپیٹ کر پیش کیا جو یہودیوں کی مظلومیت کے بیانیے پر مبنی تھی۔ سات اکتوبر 2023 تک ان کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں تھی۔ لیکن یہی دن ایک ایسا موڑ ثابت ہوا جس نے ایک صدی پرانے نظام کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا۔ سامراجی طاقتیں اپنا اخلاقی لبادہ اتار کر اور کھل کر سب کے سامنے آ گئیں۔ دنیا کی نظریں جب ان کے اقدامات پر مرکوز ہوئیں تو اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اسرائیل کے مظالم سب کو نظر آنے لگے جس کا شاید ان قوتوں کو اندازہ نہیں تھا۔

فرانس اور برطانیہ کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے سے متعلق بیانات بظاہر اسرائیل کے لیے تنبیہ کے طور پر پیش کیے گئے ہیں لیکن ان بیانات کو اگر اس ماضی کے تناظر میں دیکھیں تو انہیں بہت احتیاط سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر ملک کے اسرائیل کے ساتھ تعلق اور صہیونیت کے ساتھ وابستگی کو الگ الگ جانچنا ہوگا۔ اگرچہ ان دونوں ممالک کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن اسرائیل کے ساتھ ان کا اتحاد اس چیز سے جڑا ہے جسے وہ ’ریاستی مفاد‘ کہتے ہیں۔ جرمنی کی سابق چانسلر انجیلا مرکل نے ایک بار کہا تھا کہ ’اسرائیل کی سلامتی جرمنی کی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے‘۔ ان کے بعد جرمن وزیرِ خارجہ انالینا بیئربوک نے اور بھی کھل کر کہا کہ ’جب تک اسرائیل کی سلامتی یقینی نہیں ہو جاتی، ہم شہریوں اور اسپتالوں کو نشانہ بنانے سے ہچکچائیں گے نہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے‘۔

عام تاثر کے برخلاف برطانیہ نے بھی کھلے عام اسرائیل کی توسیع پسندانہ جارحیت اور آبادکاروں کے تشدد کی حمایت کی ہے۔ برطانوی لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر نے تو اور زیادہ سخت مؤقف اختیار کیا جب انہوں نے یہ کہا کہ اسرائیل کو حق حاصل ہے کہ وہ غزہ کی خوراک، پانی اور بجلی بند کر دے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے فلسطینیوں کو اجتماعی بھوک کا شکار بنانے کو جائز قرار دے دیا۔

تقریباً ایک صدی سے یہ ریاستیں اسرائیل کو ایک ’منافع بخش سرمایہ کاری‘ کے طور پر دیکھتی آئی ہیں۔ اور یہ جملہ کسی اور کا نہیں بلکہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کا ہے۔ یہی سوچ ان تمام مغربی ممالک کی حکمران اشرافیہ میں پائی جاتی ہے جن کا پہلے ذکر ہوا۔ لیکن عوامی سطح پر صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ لوگوں میں اسرائیل کے خلاف شدید غصہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے ایک سابق رہنما جیریمی کوربن، جو فلسطین کے معاملے پر اپنی جماعت سے اختلاف رکھتے ہیں، مبینہ طور پر ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ابتدائی اشارے بتاتے ہیں کہ یہ جماعت عوامی مقبولیت حاصل کر سکتی ہے۔

تاہم اس کے باوجود بااثر اشرافیہ کی صہیونیت کے لیے حمایت بدستور قائم ہے۔ امریکہ میں بھی اسی قسم کی تقسیم اب واضح ہونے لگی ہے اور وہاں یہ نظریاتی خلیج شاید اور بھی گہری ہو رہی ہے۔ لیکن یہ تبدیلیاں ابھی تک پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا اشارہ نہیں دیتیں۔ نہ صرف حکومتی طبقہ بلکہ علمی اور فکری حلقوں کا ایک بڑا حصہ بھی اب تک اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔

اسرائیل کی توسیع پسندانہ جارحیت اور سامراجی قوتوں کی طرف سے اسے ملنے والی غیر متزلزل حمایت کے مقابلے میں اب سب سے فیصلہ کن کردار ترکیہ اور مسلم دنیا کے ردعمل کا ہوکا۔ عام تاثر کے برخلاف مسلم دنیا نے ہمیشہ سامراج کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ سات اکتوبر 2023 کے بعد فلسطینی عوام نے جس حیرت انگیز مزاحمت کا مظاہرہ کیا، وہ عالمی توجہ کا حق دار ہے۔ مگر اسے وہ اہمیت نہیں دی گئی جو دی جانی چاہیے تھی۔ اس دن کے بعد سے صہیونی اسرائیل کے گرد بنائے گئے بہت سے ’افسانے‘ ایک ایک کر کے ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ آج دنیا بھر میں عوامی رائے تیزی سے اسرائیل سے وابستہ ہر چیز کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے عالمی غلبے کا جو نظام بنایا ہوا تھا، اس میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ شہید یحییٰ سنوار اور ان کے ساتھیوں نے ان کی نام نہاد ناقابلِ شکست حیثیت کو پاش پاش کر دیا ہے۔

اگرچہ ان کی شراکت داری بے نقاب ہو چکی ہے لیکن فرانس اور برطانیہ نے گزشتہ دو برسوں میں واضح کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل کی حمایت سے اتنی آسانی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ وقتی سیاسی چالوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کریں لیکن ان کے طویل المدتی اہداف اب بھی وہی ہیں۔ تاہم اگر اندرونِ ملک عوامی مخالفت کافی مضبوط ہو گئی تو ان کی پالیسیوں میں تبدیلی کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ مسلم دنیا کو ان طاقتوں کے خلاف ایک مضبوط، متحد اور واضح مؤقف اختیار کرنا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں حالات کے دھارے کو موڑا جا سکتا ہے۔


##فرانس
##برطانیہ
##فلسطین