وہ اس قدر نفرت کا نشانہ بن چکے ہیں کہ دنیا کے ہر کونے سے، تھائی لینڈ سے لے کر چلی تک، یورپی ممالک سے لے کر دور دراز مقامات تک، انہیں بے دخل کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے حلیف ممالک میں بھی سڑکوں پر یہود مخالف مظاہرے کررہے ہیں۔ کوئی انہیں اپنے ملکوں، شہروں، سڑکوں، ہوٹلوں، ریستورانوں یا کیفے میں نہیں دیکھنا چاہتا۔
چاہے وہ ٹک ٹاک ویڈیوز میں جتنا بھی ہنسیں، چاہے جتنا بھی ناچیں، وہ خود کو زمین پر سب سے زیادہ نفرت کیے جانے والی کمیونٹی بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ انہوں نے خود کیا۔
اس کےعلاوہ انہیں ممالک، اقوام اور انسانی نسل کے لیے ایک خطرہ اور برائی قرار دے کر ملامت کیا گیا ہے۔ اگلا قدم یہ ہے کہ یہودیوں کو ہر جگہ سے نکالا جائے، حتیٰ کہ یورپ میں بھی۔ امریکی ہتھیار بھی تمہیں بچا نہیں پائیں گے، تم یہاں تک کہ یورپ کی سڑکوں پر بھی نہیں چل پاؤگے۔
یہی موجودہ صورتحال ہے۔ لیکن چند ہی دنوں بعد میں ہم دیکھیں گے کہ ایک عالمی طوفان اُن سب کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ نفرت اور غصہ اتنا بڑھ جائے گا کہ وہ اپنے گھروں، سڑکوں اور شہروں سے نکلنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
امریکی ہتھیار اور یورپی حکومتوں اور رہنماؤں کی حمایت بھی اُن کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ وہ دیکھیں گے کہ یہ ہتھیار زیادہ تر انہی کے خلاف پلٹ رہے ہیں۔ اسرائیل کا نقشہ مشرقِ وسطیٰ میں ہے، لیکن وہ دیکھیں گے کہ یہود کے خلاف غصہ یورپ اور امریکہ میں ہے۔
’نسل کشی‘ سے بھی بڑا ایک خطرہ ہمارے بہت قریب ہے۔ اسرائیل نے اپنے ہی ہاتھوں سے تمام یہودیوں کو انسانی نسل کا مشترکہ دشمن بنا دیا ہے۔ اب وہ کسی اور کو قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے، اب کوئی ہمدردی یا ترس اُن پر اثر نہیں کرے گی۔ اُن کے ذہن اور لاشعور میں جو برائی ہے، وہ اتنی شدید اور گہری ہے کہ وہ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ نہیں سکتے۔
ہم جس نسل کشی کے گواہ ہیں، وہ نہ غزہ ہے، نہ فلسطین۔ یہ اُن کی عربوں سے نفرت نہیں ہے۔ ہم ایک ایسے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں جو نسل کشی سے بھی بڑا ہے۔
اب صاف ہو گیا ہے کہ ایک نسل، قوم یا کمیونٹی زمین اور پوری انسانیت کے لیے کتنی بڑی برائی کر سکتی ہے اور کیا خوفناک منصوبے اپنے ذہن میں رکھتی ہے۔ یہی اصل خطرہ ہے جسے ہمیں روکنا چاہیے! یہ لوگ صرف غزہ میں نسل کشی کرنے پر اکتفا نہیں کریں گے تاکہ وعدہ کی گئی زمین حاصل کریں۔ وہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے ساتھ جغرافیہ کو رہائش کے لائق نہیں بنا دیں گے۔ ان کے ذہن میں انسانیت کو مکمل ختم کرنے کے بھی منصوبے ہیں۔
لیکن اگر یہی رفتار رہی، تو وعدہ کی گئی زمین تک پہنچنے کی کوشش میں وہ خود جہنم کی تہہ میں جا پہنچیں گے۔ دنیا کو تباہ کرنے کی کوشش میں وہ خود ہی تباہ ہو جائیں گے۔ جب وہ ممالک کے نقشے سے کھیلیں گے، تو ان کے ہاتھ میں جو نقشہ ہے وہ بھی کھو بیٹھیں گے۔
صرف چھوٹے سے غزہ میں جو کچھ انہوں نے کیا ہے، اس سے انہوں نے بیسویں صدی میں کیے گئے بیانات بے اثر ہوگئے ہیں۔ اب اینٹی سیمیٹزم یا یہودی نسل کشی جیسے تصورات کسی کے لیے کوئی مطلب نہیں رکھتے۔ اب کوئی ان کے جھوٹ نہیں سننا چاہتا۔
اب کوئی ان کی تقریریں یا ان کے نظریے سنجیدگی سے نہیں لیتا۔
یہ آپ کو مبالغہ لگ سکتا ہے۔ آپ اگر صرف ریاستوں اور حکومتوں کو دیکھیں تو شاید آپ کو ایسا نہ لگے۔ لیکن ریاستیں، حکومتیں اور طاقت کے مراکز بدلتے رہتے ہیں۔ مگر قوموں، ملکوں، شہروں کی یادداشت ہزاروں سال زندہ رہتی ہے، یہ نہیں بدلتی۔
اس لیے ریاستوں کو نہ دیکھیں بلکہ قوموں کو دیکھیں۔ دیکھیں انہوں نے اپنی یادداشت میں کیا جمع کر رکھا ہے۔ دیکھیں یہودیوں کے ہاتھ سے وہ تمام اوزار کیسے نکل رہے ہیں جو ان یادوں کو بدل سکتے تھے۔
یاد رکھو اب یہ ممکن نہیں رہا کہ پرانے طرز کے میڈیا، عالمی اداروں، خریدے ہوئے رہنماؤں یا حکومتوں کے ذریعے انسانیت کی یادداشت اور اجتماعی شعور کو بدلا جا سکے۔
اس لیے جو بھی گولی، جو بھی میزائل وہ بھیجیں گے، وہ سب پلٹ کر انہی کے پاس جائے گی۔ جو بھی برائی وہ کریں گے، وہ کئی گنا بڑھ کر انہی پر واپس آئے گی۔ یہ نوٹ کر لو کہ آج انسانیت جو غصے اور درد کے ساتھ جواب دے رہی ہے، کل وہی طاقت اور سزا کے ساتھ جواب دے گی۔
’نتن یاہو کا قتل بھی تمہیں نہیں بچا سکے گا‘
اب سے اسرائیل کے پاس نیکی کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ وہ مزید برائیاں کریں گے اور مزید گہرائی میں ڈوبیں گے۔ وہ زیادہ خطرناک اقدامات کریں گے۔ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
نتن یاہو کا قتل انہیں اس گڑھے سے نہیں نکالے گا۔ کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اجتماعی برائی اور اجتماعی نسل کشی کیسے ہوتی ہے، یہ صرف ریاست تک محدود نہیں بلکہ پوری قوم اس کی حمایت کرتی ہے۔
وہ غزہ میں قتل و غارت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یمن، شام اور لبنان پر حملے جاری ہیں۔ وہ ایران پر دوبارہ حملہ کرنے اور مصر کے جزیرہ نما سینا پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
وہ اتنے بے وقوف ہیں کہ وہ یہاں تک سوچتے ہیں کہ ترکیہ پر بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ترکیہ پر حملہ کریں گے تو انہیں یہ اندازہ تک نہیں کہ بحیرہ روم کیسے بپھر جائے گا، جل اٹھے گا اور پورا خطہ کس طرح ایک ہتھیار بن جائے گا۔
پچاس سے زائد کشتیاں جب بحیرہ روم کے بیچوں بیچ روانہ ہوں اور وہ لوگ جو غزہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہی کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہے ہوں، تو وہ انسان دوست لوگوں پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ ایک انسانی کوشش کو عسکری طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر وہ غزّہ فلوٹیلا کو روک دیں تو ایک بڑی کھیپ آئے گی۔ آج پچاس کشتیاں کل سو، دو سو، تین سو جہاز بن جائیں گی۔ سمندری قافلے کے ساتھ زمینی راستے سے بھی لاکھوں لوگ شامل ہو جائیں گے۔
انسانی تاریخ میں بہت سے بڑے ظالم دفن ہو چکے ہیں۔ کئی طاقتور سلطنتیں مٹ کر راکھ بن گئی ہیں۔
اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ ایک کمزور ملک ہے۔ یہودی چند چھوٹے سے گروہ ہیں۔ اُن کے پاس بڑے جنگ میں ایک ہفتے تک مزاحمت کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ ہتھیلی جتنا چھوٹا سا رقبہ تین دن میں راکھ ہو سکتا ہے۔
تو اب طاقت دکھانے کا وقت آ گیا ہے۔۔ اب وہ لمحہ ہے جب سمندر (بحیرہ روم) پر حملہ کر کے ان کے جہازوں کو نقصان پہنچانا اور زمینی سرحدوں پر دباؤ ڈال کر ان کے دفاع کو کمزور کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے گھروں میں محفوظ محسوس نہیں ہونے دینا چاہیے۔
’اب انہیں ڈرانے کا وقت آ گیا ہے، اب مزید تاخیر نہیں کرسکتے‘
اب ’دھمکانے‘ کا وقت ہے۔ اب وہ لمحہ آ پہنچا ہے جب بحیرہ روم میں ایک اسرائیلی جنگی جہاز غرق ہو، ان کا ایک طیارہ مار گرایا جائے۔ اب ان کے گھر بمباری کا وقت ہے۔
ہمیں یہ کرنا ہوگا تاکہ بڑی برائیاں روکی جا سکیں۔ ہمیں ایک ایسے برائی کو بند کرنا ہوگا جو رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ ہمیں اپنے ممالک، اپنے لوگوں اور اپنے شہروں کے لیے ایک متحرک مزاحمتی تحریک بنانی ہوگی۔
اگر دمشق بمباری کا شکار ہوا تو تل ابیب کو بمباری کا نشانہ بنایا جانا چاہیے۔ اگر تہران پر حملہ ہوا تو تل ابیب پر حملہ ہونا چاہیے۔ اگر سرحدوں پر دراندازی ہوئی تو اسرائیل کی سرحدوں پر دراندازی ہونی چاہیے۔ اگر وہ سب کو قتل کریں تو ان کے قائدین کےساتھ بھی ویسا ہونا چاہیے۔
اگر غزہ فلوٹیلا کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا، اگر کشتیاں ڈبو دی گئیں، اگر لوگ گرفتار کیے گئے، تو دنیا بھر میں یہودیوں کو یرغمال بنا لینا چاہیے۔ جو لوگ آزاد لوگوں کے لیے بحیرہ روم بند کرتے ہیں، ان کے لیے پوری دنیا بند ہو جانی چاہیے۔
جو بھی اس علاقے میں رہتا ہے، یروشلم کو یہودی قبضے سے آزاد کرانا ضروری ہے۔ اس مقدس شہر کا مقدر ایسے بیمار معاشرے کے ہاتھ میں نہیں چھوڑا جا سکتا جسے کسی مذہب، قوم یا انسانیت کی کوئی قدر نہ ہو اور جو انسانی نسل کو زمین سے مٹا ڈالنے تک آپہنچا ہو۔
وہ اگر قتل کریں تو انہیں اپنے ملکوں سے نکال باہر کرو۔ انہیں اپنے شہروں سے نکال باہر کرو۔ اب سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو اسرائیل کی سرحدوں کی طرف دھکیلنے کا وقت آ گیا ہے۔
یہ واضح ہے کہ مزید بڑے آفات کا انتظار کرنا انسانیت کی سب سے بڑی حماقت ہو گی۔
پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ بحیرہ روم میں ایک اسرائیلی جنگی جہاز ڈبو دیا جائے۔ ایک اسرائیلی طیارہ گرایا دیا جائے۔ مرنے والے عام لوگ نہیں بلکہ اسرائیلی فوجی ہوں۔
گذشتہ ہزار سالوں میں اس خطے نے کیا کچھ دیکھا ہے، اور وہ کیا ہے؟تاریخ جس طرف جارہی ہے اسے جانے دیا جائے۔ اگر ضرورت پڑے تو بحیرہ روم جلایا جائے۔ اگر یہ کام نہیں کیے گئے تو حالات بہت بدتر ہوجائیں گے۔
اسرائیل سے لڑنا اس خطے میں رہنے والے ہر انسان کا فرض ہے۔ یہ ترکس، عرب، فارسی، کُرد اور اس وسیع خطے میں رہنے والے ہر ایک کا بنیادی فرض ہے۔ جب تک اسرائیل اس نقشے سےمٹ نہ جائے، اس خطے میں کوئی جنگ ختم نہیں ہوگی۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔