
امریکہ نے روس کی دو بڑی تیل کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دیں اور روس پر یوکرین جنگ ختم کرنے کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا الزام لگایا، جب کہ ماسکو نے جوہری ہتھیاروں سے متعلق ایک بڑی تربیتی مشق کی ہے۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پوتن جنگ ختم کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں، ہر بار میری ولادمیر سے بات چیت بہت اچھی ہوتی ہے اور پھر کچھ ہوتا نہیں ہے۔‘
اوول آفس میں بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پوتن پر تنقید کی کہ وہ امن کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان پابندیوں سے انہیں امن کے لیے مجبور کیا جا سکے گا۔
صدر ٹرمپ نے پابندیوں کو ’زبردست‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اُمید ہے کہ اگر روس جنگ ختم کرنے پر تیار ہو گیا تو انہیں فوری ختم کیا جا سکتا ہے۔
جب انہیں پوچھا گیا کہ ملاقات کیوں ملتوی کی گئی تو ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میں ایسی کوئی ملاقات نہیں کرنا چاہتا جس کا کوئی فائدہ نہ ہو، میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا‘۔
امریکہ محکمہ خزانہ نے کہا کہ روس کی دو سب سے بڑی تیل کمپنیوں، روزنیفٹ اور لوک آئل پر پابندی عائد کی ہیں۔ بیان میں کہا کہ ’یہ آئل کمپنیاں کریملن کی ’جنگی مشینوں‘ کی فنڈنگ کرتی ہیں‘۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ قتل و غارت گری روکی جائے اور فوری جنگ بندی عمل میں لائی جائے۔‘
بیسنٹ کے اس بیان کے بعد تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا اور فی بیرل قیمت میں دو ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
کئی مہینوں سے ٹرمپ پر امریکی قانون سازوں کا دباؤ تھا کہ روس پر توانائی سے متعلق پابندیاں عائد کی جائیں، لیکن امریکی صدر اس کی مزاحمت کررہے تھے کیونکہ انہیں امید تھی کہ پیوٹن لڑائی ختم کرنے پر راضی ہو جائیں گے۔ لیکن جب جنگ کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے تو ٹرمپ نے کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے‘۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ اب بھی یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹام ہاک میزائلز فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جن کی درخواست کیف کی جانب سے کی گئی تھی۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک رُٹے سے ملاقات کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں ٹرمپ نے کہا کہ یوکرینیوں کو یہ میزائل استعمال کرنا سیکھنے میں کم از کم چھ ماہ لگیں گے۔
آئندہ ہفتے جنوبی کوریا میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے قبل ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ شی جنگ پنگ اپنی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے پیوٹن پر دباؤ ڈالیں تاکہ لڑائی کو روکا جا سکے۔ شی اور پیوٹن نے اپنے ممالک کے درمیان ایک اسٹریٹجک اتحاد قائم کر رکھا ہے۔
اسی دوران کریملن نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں روسی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل ویلےری گیراسیموف کو بریفنگ دیتے ہوئے دکھایا گیا کہ وہ پوتن کو فوجی مشقوں کے بارے میں آگاہ کررہے ہیں۔ روس نے کہا ہے کہ اس نے زمین سے داغے جانے والے لانچرز، آبدوزوں اور طیاروں سے میزائل فائر کیے، جن میں بین البراعظمی بیلسٹک میزائل بھی شامل ہیں جو امریکہ تک مار کر سکتے ہیں۔










