غزہ میں افواج کی تعیناتی کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی بنیاد پر کیا جائے گا: ترک وزیرِ خارجہ

اقرا حسین
08:504/11/2025, منگل
جنرل4/11/2025, منگل
ویب ڈیسک
ترکی کے شہر استنبول میں  عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا
تصویر : ایکس / انادولو
ترکی کے شہر استنبول میں عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا

ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والے عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی مذمت کرتے ہوئے غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔

غزہ میں امن و استحکام کے لیے بین الاقوامی فورس میں ترکیہ کی ممکنہ شرکت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ترک وزیرِ خارجہ ہکان فیدان کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متوقع قرارداد کے متن (یعنی اس میں استعمال ہونے والے الفاظ اور شرائط) کو دیکھ کر کریں گے کہ وہ اپنی افواج بھیجیں یا نہیں۔

ہکان فیدان نے استنبول میں غزہ کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس کے بعد کہا کہ ’جن ممالک سے ہماری بات ہوئی ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متوقع قرارداد میں دی گئی ڈیفینیشن کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے کہ افواج بھیجنی ہیں یا نہیں۔‘

یہ اجلاس انڈونیشیا، پاکستان، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور قطر کے نمائندوں کی شرکت سے منعقد ہوا۔

ہکان ففدان نے کہا کہ بات چیت اور مختلف کوششیں جاری ہیں اور ممالک نے جس بنیادی نکتے پر زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ فورس کا مینڈیٹ اور قانونی حیثیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے دائرہ کار کے مطابق ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ممالک زیادہ تر فیصلہ اس بنیاد پر کریں گے کہ بین الاقوامی استحکام فورس کو کیا اختیارات اور مینڈیٹ دیا جاتا ہے۔ اگر یہ مینڈیٹ ان کے اپنے اصولوں اور پالیسیوں سے متصادم ہوا تو ان کے لیے فوج بھیجنا مشکل ہوگا۔‘

ہکان فیدان نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کے اس معاملے پر بیانات ’واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں‘ کہ ترکیہ امن کے قیام کے لیے کردار ادا کرنے اور ضروری قربانیاں دینے کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’تاہم یہ بھی اہم ہے کہ جو حتمی دستاویزات اور فریم ورک تیار ہوں، وہ ایسے نوعیت کے ہوں جن کی ہم حمایت کر سکیں۔ اسی لیے اس معاملے پر ہماری سفارتی بات چیت اور کوششیں جاری ہیں۔‘

انہوں نے زور دیا کہ فورس کے مینڈیٹ کی وضاحت کے عمل میں سب سے پہلے ایک عمومی اتفاقِ رائے حاصل کیا جانا چاہیے اور پھر اس مسودے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اس طرح منظور کرانا ہوگا کہ مستقل رکن ممالک میں سے کوئی بھی اس پر ویٹو نہ کرے۔ ہکان فیدان نے کہا کہ ترکیہ اور اس کے شراکت دار ممالک اس پورے عمل کے ہر مرحلے پر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس عمل کو حساس قرار دیتے ہوئے ترک وزیرِ خارجہ حاکان فدان نے کہا کہ ’اس پورے عمل کے دوران ہمیں انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے‘۔

’فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے اٹھایا جانے والا کوئی بھی قدم ایسا ڈھانچہ نہیں بنانا چاہیے جو موجودہ مسئلہ تو حل کر دے مگر مستقبل میں نئی مشکلات کی بنیاد رکھ دے۔ ہم اس پہلو پر خاص توجہ دے رہے ہیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ غزہ میں حکمرانی کا نظام کیسے تشکیل دیا جائے گا اور اس حوالے سے عالمی برادری کا مؤقف کیا ہے، تو ہکان فدان نے کہا کہ ’بنیادی طور پر، اس معاملے پر ہمارے درمیان اتفاقِ رائے موجود ہے۔ نہ ہمیں اور نہ ہی فلسطینیوں کو اس پر کوئی اعتراض ہے۔ تاہم اسرائیل اور دیگر بااثر بین الاقوامی طاقتوں کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔ ان دو مختلف آراء میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اس وقت سفارتی مذاکرات، اختلافات، اور عملی تیاریوں کا عمل جاری ہے۔‘

ہکان فیدان نے اس بات پر زور دیا کہ جو مسودہ تیار کیا جائے گا اور جو نظام تشکیل پائے گا، اس میں یہ بات اہم ہوگی کہ کن ترجیحات کو شامل کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارا اصول یہ ہے کہ فلسطینیوں کو خود اپنی حکومت چلانی چاہیے اور اپنی سیکیورٹی بھی خود یقینی بنانی چاہیے۔‘

فدان نے مزید کہا کہ ’فی الحال جنگ بندی نافذ ہے، لیکن جیسے ہی ایک پائیدار حل کی جانب بڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے، فلسطینی مسئلے کے بنیادی اور گہرے اختلافات دوبارہ سامنے آ جاتے ہیں، یہ وہ اختلافات ہیں جو برسوں سے حل طلب ہیں۔‘






#ترکیہ
#پاکستان
##غزہ امن معاہدہ