طالبان کے افغان سرزمین دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے کے دعوے قابلِ اعتبار نہیں، ٹی ٹی پی اور دیگر گروہ اب بھی وہاں سرگرم ہیں: اقوامِ متحدہ کی رپورٹ

10:2118/12/2025, Perşembe
جنرل18/12/2025, Perşembe
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کے اپنی سرزمین سرحد پار دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے دعوے قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک اسے علاقائی عدم تحفظ کے ذریعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

یہ تجزیہ 'اینالیٹکل سپورٹ اینڈ سینکشنز مانیٹرنگ ٹیم' کی سولہویں رپورٹ میں شامل ہے جو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کاؤنسل میں جمع کرائی گئی ہے۔ یہ رپورٹ ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب افغانستان سے متعلق عالمی تشویش میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان بھی ایک عرصے سے یہ دعوے کر رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے حملے کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکام ان دعوؤں اور الزامات کی مسلسل تردید کر رہے ہیں کہ ان کی سرزمین پر کوئی دہشت گرد تنظیم سرگرم نہیں ہے۔ لیکن ان کے یہ دعوے قابلِ اعتماد نہیں۔

طالبان نے 2020 میں امریکہ کے ساتھ دوحہ امن معاہدے میں وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان کو دوسرے ملکوں کے لیے خطرہ نہیں بننے دیں گے۔ تاہم 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے انہوں نے ملک میں داعش خراسان کے خلاف تو جارحانہ کارروائیاں کی ہیں لیکن دیگر دہشت گرد گروپس کے بارے میں مختلف حکمتِ عملی رکھی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جمع رپورٹ کے مطابق کئی رکن ممالک مستقل یہ رپورٹ کر رہے ہیں کہ داعش خراسان، تحریکِ طالبان پاکستان، القائدہ، شمالی ترکستان اسلامی تحریک جسے ترکستان اسلامی پارٹی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جماعت انصار اللہ، اتحاد المجاہدین پاکستان اور دیگر دہشت گرد گروپس افغانستان میں سرگرم ہیں۔ ان میں سے کچھ گروپس یا تنظیمیں اب بھی افغانستان سے بیرونی حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اشارے ملتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کو طالبان سے کافی لاجسٹک اور آپریشنل مدد ملتی رہی ہے۔

’طالبان نے دہشت گرد گروہوں کے لیے ایک حد تک اجازت دینے والا ماحول برقرار رکھا ہوا ہے جو دوسرے رکن ممالک کے لیے سنگین خطرہ ہے۔'

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القائدہ کے طالبان سے قریبی روابط برقرار ہیں اور اس کی افغانستان کے کچھ صوبوں میں موجودگی بھی ہے۔ اگرچہ اس کی سرگرمیاں زیرِ زمین ہیں تاہم اقوامِ متحدہ کے جائزہ کاروں نے کہا ہے کہ تنظیم اس ماحول سے فائدہ اٹھا رہی ہے جو انہیں تربیت اور تنظیمِ نو کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔ دوسری جانب داعش خراسان جو طالبان کی حریف تصور کی جاتی ہے، طالبان نے اس کے علاقائی کنٹرول کو ختم کرنے کے لیے آپریشنز کیے ہیں لیکن اس کے باوجود تنظیم کی موجودگی برقرار ہے اور وہ افغانستان اور بیرونِ ملک حملے کرتی رہتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو طالبان کے اندرونی عناصر سے مدد مل رہی ہے اور وہ افغانستان میں موجود اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

رپورٹ کے مطابق 'طالبان حکام ٹی ٹی پی کو روکنے کی اپنی ذمے داری میں ناکامی سے انکار اور اس سے پیچھے ہٹتے رہے ہیں۔ طالبان کے اندر مختلف سطحوں پر ٹی ٹی پی کے لیے ہمدردی اور وابستگی پائی جاتی ہے۔'

رپورٹ کے مطابق 'کچھ سینیئر ارکان ٹی ٹی پی کو ایک بوجھ کے طور پر دیکھتے ہیں جو غیر ضروری طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو کشیدہ اور خراب کر رہی ہے جب کہ دیگر اس کے حامی ہیں۔ تاریخی روابط کی وجہ سے طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات کرنے یا اسے روکنے پر آمادہ نہیں ہیں۔' رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر طالبان ٹی ٹی پی کو روکنا بھی چاہیں تو ان کے پاس شاید وہ صلاحیت ہی نہیں ہے۔

مزید کہا گہا ہے کہ ٹی ٹی پی نے افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں کئی بڑے حملے کیے ہیں جس سے کابل اور اسلام آباد کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 'ان حملوں کے نتیجے میں سرحد پر دونوں ملکوں کے درمیان فوجی محاذ آرائی ہوئی جس میں کئی جانیں بھی گئیں اور دوطرفہ تجارت بھی متاثر ہوئی۔'

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں کی بندش سے افغان معیشت کو یومیہ تقریباً 10 لاکھ ڈالر کا نقصان ہونے کا اندازہ ہے۔

مانیٹرنگ ٹیم نے کہا کہ ٹی ٹی پی نے اپنے اہداف کے دائرے کو وسعت دے دی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کا یہ دیرینہ مؤقف رہا ہے کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گرد حملے کرتی ہے اور طالبان اسے روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ جب کہ طالبان ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے آئے ہیں اور ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیتے رہے ہیں۔

##پاکستان
##افغانستان
##دہشت گرد گروپس
##اقوام متحدہ