
یاد رہے کہ فیض حمید سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں 2019ء سے 2021 ء تک تین سال آئی ایس آئی کے سربراہ رہے تھے۔
ملکی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے پریس ریلیز جاری کی جس میں بتایا گیا کہ ’12 اگست 2024 کو سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل پاکستان آرمی ایکٹ کی شقوں کے تحت شروع کیا گیا، جو 15 ماہ تک جاری رہا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ملزم پر چار الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا: سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ تھی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور متعلقہ افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔‘
پاکستان فوج نے مزید کہا کہ ’طویل قانونی کارروائی کے بعد ملزم کو تمام الزامات میں قصوروار پایا گیا اور عدالت نے اسے 14 سال سخت قید کی سزا سنائی، جو 11 دسمبر 2025 کو نافذ العمل ہوئی۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’عدالتی کارروائی کے دوران فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی ضروریات کو پورا کیا اور ملزم کو اپنی مرضی کی دفاعی ٹیم رکھنے کے حق سمیت تمام حقوق فراہم کیے گئے اور ملزم کے پاس اس فیصلے کے خلاف مناسب فورم پر اپیل کا حق موجود ہے۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’مجرم کی سیاسی کرداروں سے مل کر سیاسی ہنگامہ آرائی اور عدم استحکام پھیلانے کی کوششوں سمیت چند دیگر معاملات کو الگ سے دیکھا جا رہا ہے۔‘
یاد رہے کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے فیض حمید کے خلاف ایک تفصیلی 'کورٹ آف انکوائری' ہوئی تاکہ ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستگی کا پتہ لگایا جاسکے اور اس کے نتیجے میں پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیض حمید کے خلاف 'مناسب تادیبی کارروائی شروع کی گئی۔'
فوج نے اعتراف کیا تھا کہ فیض حمید کے حوالے سے 'ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کے خلاف ورزی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔'
ٹاپ سٹی کیس کیا ہے؟
ایک پرائیویٹ ہاؤسنگ اسکیم ’ٹاپ سٹی‘ کی انتظامیہ نے سابق آئی ایس آئی چیف کے خلاف سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ فیض حمید نے ہاوٴسنگ اسکیم کے مالک معیز خان کے دفاتر اور رہائش گاہ پر چھاپہ مارنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
نومبر 2023 میں سپریم کورٹ نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کو ہدایت کی کہ وہ سابق انٹیلی جنس چیف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف شکایات وزارت دفاع سمیت متعلقہ حکام سے رابطہ کریں۔
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ ’تشکیل دی گئی انکوائری کمیٹی اپنے نتائج کی بنیاد پر ایک رپورٹ بنائے گی اور اسے متعلقہ حکام کو پیش کرے گی۔
مارچ 2023 میں اُس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اعلان کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور ان کے بھائی کے خلاف مبینہ کرپشن اور اپنے وسائل سے زیادہ دولت جمع کرنے کے الزام میں تحقیقات جاری ہیں۔
فیض حمید کا متنازع ماضی
سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی ماضی کی بات کریں تو وہ پچھلی ایک دہائی سے ملک کے سیاسی منظر نامے میں کئی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔
جنرل حمید کا نام سب سے پہلے لوگوں کی نظروں میں اس وقت آیا جب انہوں نے نومبر 2017 میں ایک معاہدے کے ذریعے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے فیض آباد دھرنے کو ختم کرنے میں مدد کی۔
اُس واقعے کے ازخود نوٹس میں سپریم کورٹ نے فروری 2019 میں فیصلہ دیا تھا کہ آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کو اپنے متعلقہ مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
جنرل (ر) فیض حمید کو جون 2019 میں آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ ڈان اخبار نے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیا تھا اور نومبر 2022 میں اپنا استعفیٰ فوج کے اعلیٰ حکام کو بھیج دیا تھا۔ یاد رہے کہ فیض حمید کو اپریل 2023 میں ریٹائر ہونا تھا۔
نومبر 2022 میں جنرل فیض حمید ان 6 سینئر ترین جرنیلوں میں شامل تھے جن کا نام جی ایچ کیو نے 2 اعلیٰ ترین فوجی عہدوں کے لیے ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
بہاولپور کور کمانڈر کا چارج سنبھالنے سے پہلے جنرل فیض حمید پشاور میں کور کمانڈر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہیں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
نواز شریف اور مریم نواز نے الزام لگایا کہ فیض حمید نے ہی ان کی سزاؤں میں اہم کردار ادا کیا اور وہ پی ٹی آئی حکومت کی حمایتی تھے۔











