
قازقستان اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے طے پانے والے ’ابراہیم معاہدے‘ میں باضابطہ طور پر شامل ہوگیا۔
قازقستان اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے طے پانے والے ’ابراہیم معاہدے‘ میں باضابطہ طور پر شامل ہوگیا۔قازق صدر قاسم جومارت توقایف نے یہ اعلان اسرائیل کے ساتھ سرکاری سفارتی تعلقات قائم کرنے کے 33 سال بعد کیا ہے۔
انادولو ایجنسی کے مطابق ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں منعقدہ ’انٹرنینشل فارم فار پیس اینڈ ٹرسٹ‘ سے خطاب کرتے ہوئے قازق صدر نے ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت پر بھی زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ابراہیم معاہدے میں شامل ہونے کا قازقستان کا فیصلہ اس خواہش سے ہے کہ ہم اس خطے میں استحکام لانے میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ ساتھ ہی، قازقستان ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی بھی حمایت کرتا ہے، جو اس طویل فوجی اور سیاسی تنازع کے حل کے لیے انتہائی ضروری ہے۔‘
قازقستان، جس نے پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور 1992 میں اسے تسلیم کیا تھا، نے نومبر میں ابراہیم معاہدے میں اپنی شمولیت کی تصدیق کی تھی۔
ابراہیم معاہدے امریکی سرپرستی میں ہونے والے وہ سمجھوتے ہیں جنہوں نے ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت کے دوران اسرائیل اور کئی مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں کردار ادا کیا۔ قازقستان سے قبل چار ممالک یہ امن معاہدے قبول کر چکے ہیں جن میں بحرین، مراکش، سوڈان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔






