
آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم انتھونی البانیز نے کہا ہے کہ ان کی حکومت بونڈی بیچ پر اتوار کو ہونے والی فائرنگ کے بعد نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کریک ڈاؤن کرے گی۔
یہ حملہ ایک یہودی تہوار ہنوکا کے دوران کیا گیا تھا۔ تہوار کے پہلے دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں دو مسلح افراد کی فائرنگ سے 15 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انتھونی البانیز نے کہا کہ نئے قوانین اُن افراد کے خلاف ہوں گے جو ’نفرت، تقسیم اور انتہاپسندی کو فروغ دیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ وزیرِ داخلہ کو نفرت پھیلانے والوں کے ویزے منسوخ کرنے یا مسترد کرنے کے نئے اختیارات دیے جائیں گے، جبکہ ایک نیا ٹاسک فورس بھی قائم کیا جائے گا تاکہ تعلیمی نظام میں یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہودی مخالف نفرت (اینٹی سیمیٹزم) کو روکا جائے، اس کا مقابلہ کیا جائے اور اس پر مؤثر ردِعمل دیا جائے۔
نئے قوانین کے تحت جو مذہبی یا سماجی رہنما تشدد پر اکساتے ہیں، انہیں سزا دی جا سکے گی۔ انتہائی نفرت پر مبنی باتیں یا تقاریر کرنا اب ایک نیا وفاقی جرم ہوگا۔ اگر کوئی شخص آن لائن دھمکیاں دے یا ہراسانی کرے اور اس کے پیچھے نفرت (مثلاً مذہب یا نسل کی بنیاد پر) ہو، تو عدالت اس جرم پر زیادہ سخت سزا دے سکے گی۔
انتھونی البانیز نے کہا کہ ’ہر یہودی آسٹریلوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود کو محفوظ، باعزت اور اس عظیم قوم میں اپنے کردار کے حوالے سے قدر کی نگاہ سے دیکھا ہوا محسوس کرے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’داعش سے متاثر دہشت گردوں نے آسٹریلوی عوام کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے کی کوشش کی، لیکن آسٹریلویوں نے اس نفرت انگیز عمل کا جواب محبت اور ہمدردی کے ساتھ دیا۔‘
وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ ان کی حکومت جولائی میں یہودی مخالف نفرت سے نمٹنے کے لیے مقرر کردہ نمائندہ جیلین سیگل کی رپورٹ میں دی گئی سفارشات کو ’مکمل طور پر اپنائے گی اور ان پر عمل کرے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ملک ’نہ صرف ہماری کمیونٹی بلکہ دنیا بھر میں یہودی مخالف نفرت کے خلاف جدوجہد کے لیے ایک نہایت اہم موڑ پر کھڑا ہے۔‘
تاہم جولائی میں رپورٹ کے اجرا کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے اس پر تنقید بھی کی گئی تھی، خاص طور پر آزادیٔ اظہار سے متعلق خدشات کے باعث۔ تنقید میں یہ نکات شامل تھے کہ جامعات اور فنونِ لطیفہ کے اداروں کی نگرانی کی جائے گی اور اگر انہیں یہودی مخالف نفرت کے خلاف ناکام سمجھا گیا تو ان کی فنڈنگ روکی جا سکتی ہے۔ بعض ناقدین کو خدشہ تھا کہ اس سے فلسطین کے حق میں مظاہروں کو خاموش کرانے کے لیے فنڈنگ کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے بولنے کی آزادی محدود ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق حکومت جامعات اور فنونِ لطیفہ کے اداروں پر کڑی نگرانی کرے گی اور اگر یہ ادارے یہودی مخالف نفرت کو روکنے میں ناکام قرار دیے گئے تو ان کی فنڈنگ بند کی جا سکتی ہے۔ ناقدین کو ڈر ہے کہ یہ اختیار فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں یا آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔









