برطانیہ کی یونیورسٹیوں نے پاکستانی اور بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے داخلے بند یا محدود کر دیے

اقرا حسین
09:5510/12/2025, بدھ
جنرل10/12/2025, بدھ
ویب ڈیسک
یہ اقدام برطانیہ کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے سخت امیگریشن قوانین اور ویزا کے مبینہ غلط استعمال پر بڑھتی ہوئی تشویش کے بعد سامنے آیا ہے۔
تصویر : آرکائیو / فائل
یہ اقدام برطانیہ کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے سخت امیگریشن قوانین اور ویزا کے مبینہ غلط استعمال پر بڑھتی ہوئی تشویش کے بعد سامنے آیا ہے۔

برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق برطانیہ کی کئی یونیورسٹیوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کو داخلے دینا روک دیے ہیں یا محدود کر دیے ہیں۔

یہ اقدام برطانیہ کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے سخت امیگریشن قوانین اور ویزا کے مبینہ غلط استعمال پر بڑھتی ہوئی تشویش کے بعد سامنے آیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کم از کم نو ہائر ایجوکیشن اداروں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کو اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے ’ہائی رسک‘ کیٹیگری میں شامل کرتے ہوئے اپنی انرولمنٹ پالیسیوں کو سخت کر دیا ہے، تاکہ وہ بغیر کسی مسئلے کے بین الاقوامی طلبہ کو ویزا کے لیے اسپانسرشِپ برقرار رکھ سکیں۔

یہ فیصلہ اس پس منظر میں کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی طلبہ کی جانب سے پناہ (اسائلم) کی درخواستوں میں اضافہ ہوا ہے، جس پر برطانوی وزراء نے خبردار کیا کہ اسٹڈی ویزا کا غلط استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا (یعنی لوگ صرف مستقل رہائش حاصل کرنے کے لیے پڑھائی کا بہانہ نہ بنائیں)

جن یونیورسٹیوں نے داخلے بند کیے ہیں، ان میں یونیورسٹی آف چیسٹر بھی شامل ہے۔ یونیورسٹی نے پاکستان سے طلبہ کے داخلے ستمبر/اکتوبر 2026 تک روک دیے ہیں۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ویزا ریجیکشن میں غیر متوقع اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

یونیورسٹی آف وولورہیمپٹن بھی پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں سے انڈرگریجویٹ درخواستیں قبول نہیں کر رہی۔ اس کےعلاوہ یونیورسٹی آف ایسٹ لندن نے بھی پاکستانی طالبعلموں کو داخلے دینا بند کردیے ہیں۔

اس کے علاوہ سنڈرلینڈ، کووینٹری، ہیرٹفورڈشائر، آکسفورڈ بروکس، گلاسگو کیلیدیون اور نجی یونیورسٹی بی پی پی نے بھی پاکستان اور بنگلہ دیش سے داخلے یا تو روک دیے ہیں یا کم کر دیے ہیں اور وہ اسے ریسک مینجمنٹ یا حفاظتی اقدامات قرار دے رہی ہیں۔

یہ پابندیاں ستمبر سے نافذ ہونے والے نئے قواعد و ضوابط کے بعد سامنے آئیں، جس میں بین الاقوامی طلبہ کو اسپانسر کرنے والی یونیورسٹیوں کے لیے ویزا ریفیوزل کی زیادہ سے زیادہ حد 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دی گئی ہے۔

تاہم فنانشل ٹائمز کے مطابق پاکستانی اور بنگلہ دیشی طلبہ کے ویزا درخواستوں کی منظوری نہ ہونے کی شرح بالترتیب 18 فیصد اور 22 فیصد ہے، جو نئے مقرر کردہ حد سے بہت زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق ستمبر 2025 تک جو 23 ہزار 36 طلبہ کے ویزا ریفیوز ہوئے، ان میں سے تقریباً آدھے ریفیوز پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کے ہیں۔

ان دونوں ممالک سے آنے والے طلبہ کی جانب سے پناہ (اسائلم) کی درخواستیں بھی بڑھ گئی ہیں، جن میں زیادہ تر وہ طلبہ شامل ہیں جو پہلے اسٹڈی یا ورک ویزا پر برطانیہ آئے تھے۔

بین الاقوامی ہائر ایجوکیشن کے مشیر وینچینزو ریمو نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ یہ کریک ڈاؤن ان یونیورسٹیوں کے لیے ایک بڑی مشکل پیدا کرسکتا ہے جو بیرون ملک طلبہ کے داخلوں پر زیادہ انحصار کرتی ہیں۔

تعلیمی مشیروں نے اس اقدام پر مایوسی ظاہر کی ہے۔ لاہور کی ایڈوینس ایڈوائزرز کی بانی مریم عباس نے کہا کہ یہ فیصلہ طلبہ کے لیے بہت افسوسناک ہے، جن کی درخواستیں آخری مرحلے میں رد ہو رہی ہیں۔


#برطانیہ
#تعلیم
#ویزا
#پاکستان
#بنگلہ دیش