
شیخ حسینہ کی انڈیا میں موجودگی پچھلے پندرہ مہینوں سے دونوں جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی کا اہم سبب رہی ہے۔
اب جبکہ شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم میں سزائے موت سنائی جاچکی ہے تو توقع کی جارہی ہے کہ تناؤ میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگرچہ انڈیا شیخ حسینہ کے اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد بنگلہ دیش سے تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے لیکن کئی جغرافیائی اور سیاسی تجزیہ کار یہ منظرنامہ تصور نہیں کرسکتے کہ نئی دہلی سابق وزیراعظم کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے گی تاکہ وہ موت کی سزا بھگتیں۔
ڈھاکہ میں انڈین ہائی کمشنر کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے پناک رنجن چکریورتھی کہتے ہیں کہ ’نئی دہلی انہیں (شیخ حسینہ) کو موت کی طرف کیسے دھکیل سکتی ہے؟‘
شیخ حسینہ، جو انڈیا کی دیرینہ حلیف رہی ہیں، 5 اگست 2024 کو نئی دہلی فرار ہو گئی تھیں اور تب سے نوبل انعام یافتہ محمد یونس عبوری لیڈر کے طور پر اقتدار سنبھال رہے ہیں۔ محمد یونس کی حکومت نے تب سے انڈیا کے ساتھ کشیدگی کے دوران پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
منگل کو ڈھاکہ کے وزارتِ خارجہ نے انڈیا کے ساتھ موجود حوالگی کے معاہدے کا حوالہ دیا اور کہا کہ شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش واپس لانے کے لیے نئی دہلی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’کسی بھی دوسرے ملک کے لیے انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کو پناہ دینا غیر دوستانہ رویہ اور انصاف کی توہین ہو گی۔ ہم انڈین حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ دونوں سزا یافتہ افراد کو فوری طور پر بنگلہ دیشی حکام کے حوالے کرے۔
تاہم انڈیا کے سیاسی تجزیہ کار الجزیرہ کو بتاتے ہیں کہ حوالگی کے معاہدے میں ایک استثنا موجود ہے، یعنی اگر جرم ’سیاسی نوعیت‘ کا ہو تو ایسی صورت میں ملزم کو حوالگی دینے کا تقاضا لاگو نہیں ہوتا۔
نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر سنجے بھاردواج کہتے ہیں کہ انڈیا سمجھتا ہے کہ شیخ حسینہ کا کیس بنگلہ دیش میں حکومتی سیاسی قوتوں کی سیاسی انتقامی کارروائی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ نئی دہلی کے نقطہ نظر سے آج بنگلہ دیش انڈیا مخالف قوتوں کے زیرِ اثر ہے۔ ’شیخ حسینہ کو حوالگی دینا ان لوگوں کو جائز ٹھہرانے کے مترادف ہوگا جو انڈیا کے خلاف ہیں۔‘
دوسری جانب گزشتہ روز انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے شیخ حسینہ کی سزائے موت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم شیخ حسینہ کے خلاف سنائے گئے فیصلے سے آگاہ ہیں اور نئی دہلی ہمیشہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعمیری طور پر رابطہ رکھے گا‘۔
انڈیا نے مزید کہا کہ ’قریبی پڑوسی ملک ہونے کے ناتے انڈیا بنگلہ دیشی عوام کے بہترین مفاد کے لیے پرعزم ہے۔‘
تاہم آج نئی دہلی اور ڈھاکہ کے تعلقات سرد مہری کے حامل ہیں۔ وہ خوشحال اقتصادی، سلامتی اور سیاسی اتحاد جو شیخ حسینہ کے دور میں موجود تھا، اب بداعتمادی کی بنیاد پر تعلقات میں بدل چکا ہے۔
سابق انڈین ہائی کمشنر پناک رنجن چکریورتھی نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا ہے کہ یہ صورتحال جلد تبدیل ہوگی۔
چکریورتھی نے الجزیرہ کو بتایا کہ اس حکومت [ڈھاکہ میں] کے تحت، تعلقات کشیدہ رہیں گے کیونکہ وہ بار بار کہیں گے کہ انڈیا شیخ حسینہ کو واپس نہیں کررہا۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ فروری میں ہونے والے بنگلہ دیش کے انتخابات ایک نیا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ اگرچہ شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا گیا ہے اور دیگر بڑی سیاسی جماعتیں (بشمول سب سے بڑی حزب اختلاف، بنگلہ دیش نیشنل پارٹی) نئی دہلی پر تنقید کرتی ہیں، انڈیا کے لیے منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنا آسان ہو جائے گا۔
چکریورتھی نے یہ بھی کہا کہ ’ہم اس طرح نہیں چل سکتے اور انڈیا کو ڈھاکہ میں ایک منتخب حکومت کی ضرورت ہے۔ انڈیا کو انتظار کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے، لیکن دیگر انتظامات، جیسے تجارت، کو متاثر نہیں کرنا چاہیے۔‘
انڈیا کی جندل گلوبل یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کے مطالعہ کی پروفیسر سریرادھا دتّا کہتے ہیں کہ انڈیا شیخ حسینہ کے معاملے میں ایک مشکل صورتحال میں پھنس گیا ہے، لیکن وہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے خلاف عوامی ناراضگی سے بے خبر نہیں ہے۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ مثالی صورتحال میں نئی دہلی مستقبل میں کسی نہ کسی وقت عوامی لیگ کو بنگلہ دیش میں دوبارہ اقتدار میں دیکھنا چاہے گا۔ ’وہ (شیخ حسینہ) ہمیشہ انڈیا کے لیے بہترین آپشن رہی ہیں۔‘
لیکن حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کو قبول کرنا ہوگا کہ بنگلہ دیش ممکنہ طور پر شیخ حسینہ کو دوبارہ موقع دینے والا نہیں ہے۔ اس کے بجائے، انڈیا کو ڈھاکہ کی دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’انڈیا کا وہاں دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کبھی اچھا تعلق نہیں رہا۔ لیکن یہ اب بدلنا ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ وقت میں انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات بہت نازک ہیں، لیکن انڈیا کو شیخ حسینہ کی حوالگی کے معاملے پر جمے رہنے کی بجائے اس مسئلے سے آگے بڑھ کر تعلقات کو سنبھالنا ہوگا۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ چاہے انڈیا اور بنگلہ دیش اب اتحادی نہ رہیں، لیکن دونوں کے درمیان ’احترام اور مہذب رویہ‘ ہونا ضروری ہے۔






