پاکستان اب افغان طالبان سے تمام امیدیں ختم کر رہا ہے، مستقبل میں بھی کابل سے اچھائی کی کوئی امید نہیں: خواجہ آصف

اقرا حسین
08:5126/11/2025, Çarşamba
جنرل26/11/2025, Çarşamba
ویب ڈیسک
پاکستان وزیر دفاع خواجہ آصف
تصویر : ایکس / فائل
پاکستان وزیر دفاع خواجہ آصف

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان کے حوالے سے ہر طرح کی اُمید ختم کر دی ہے اور مستقبل میں بھی کابل کی جانب سے اچھائی کی کوئی امید نہیں۔

جیو نیوز کے پرواگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان نے کئی مرتبہ دہشت گردی کے خاتمے کے معاملے پر افغان طالبان سے مہذب انداز بات چیت کرنے کوشش کی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی لیکن اب پاکستان نے افغان طالبان کی باتوں کو سنجیدہ لینا یا اُن پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا ہے۔

میزبان نے جب سوال کیا کہ ’طالبان نے کہا کہ وہ اسلامی قانون کے مطابق جواب دیں گے‘۔ اس پر وزیرِ دفاع نے طنزیہ انداز میں کہا کہ آخر وہ کون سا اسلامی قانون ہے جس کے مطابق افغان طالبان نے برسوں پاکستان میں رہائش اختیار کی اور پھر اسی ملک کا خون بہایا؟

’کیا یہ کوئی اپنی بنائی ہوئی شریعت ہے؟ یہ رسولِ کریم ﷺ کی شریعت نہیں ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان جوابی کارروائی کرے گا؟َ تو پاکستان کے دوست ممالک ترکیہ، ایران، سعودی عرب، چین اور قطر سب یہی چاہتے ہیں کہ اس خطے اور پاکستان میں امن ہو جس کا فائدہ اُن ممالک کو بھی ہو گا اور پاکستان اسی وجہ سے افغانستان کو فوری جواب نہیں دے رہا ہے۔

افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کی افواج کی پر خوست میں فضائی حملے کے الزام پر پاکستان کے وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کی فوج ایک ڈسپلن فوج اور ’ہم کبھی بھی سویلینز یا عام شہریوں پر حملہ نہیں کرتے ہیں۔ پاکستان اگر افغاانستان میں کارروائی کرے گا تو واشگاف انداز میں کرے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ افغان طالبان اگر چاہیں تو انڈیا کے ساتھ تجارت شروع کریں یا جس راستے سے چاہیں کریں، انہیں پوری آزادی ہے۔ پاکستان کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ تمام سامان آخرکار ہماری ہی مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے۔‘

جب طالبان کی دھمکی پر وزیرِ دفاع نے کہا کہ ’یہ صرف باتیں ہیں۔ طالبان کی باتوں کو سنجیدگی سے لینا یا ان پر اعتماد کرنا سب سے بڑی بے وقوفی ہے‘۔


پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی تعلقات

حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات کشیدگی کا شکار ہو گئے ہیں کیونکہ کالعدم ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا تنازعہ بنی ہوئی ہے۔پاکستان کا مطالبہ ہے کہ کابل کی حکومت سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی روکنے کے لیے کارروائی کرے، لیکن افغان طالبان پاکستان کے اس الزام کو مسترد کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کو افغان سرزمین استعمال کرنے دی جا رہی ہے۔

اکتوبر میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے بعد مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس میں دونوں ممالک نے پائیدار امن اور استحکام کے لیے طریقہ کار پر بات چیت کی۔

25 اکتوبر کو استنبول میں بات چیت کا دوسرا دور شروع ہوا، لیکن اطلاعات کے مطابق وزیرِ اطلاعات عطااللہ تارڑ نے بتایا کہ یہ مذاکرات کوئی قابلِ عمل حل نہ دے سکے۔

تاہم ترکیہ اور قطر نے ثالثی کا کردار ادا کیا اور 31 اکتوبر کو انقرہ نے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ مزید طریقہ کار نومبر میں استنبول میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں طے کیا جائے گا۔

لیکن 7 نومبر کو تیسرے دور کے بعد وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ سرحد پار دہشت گردی سے متعلق مذاکرات ’ختم ہو چکے ہیں‘ اور اب ’غیر معینہ مدت‘ تک رکے رہیں گے کیونکہ دونوں ممالک اپنے بڑے اختلافات دور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

مذاکرات کی ناکامی کے بعد افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ تجارت معطل کر دی، جبکہ پاکستان پہلے ہی اکتوبر کی جھڑپوں کے بعد سرحد کو تجارتی سرگرمیوں کے لیے بند کر چکا تھا۔

بعد ازاں ترکیہ نے اعلان کیا کہ اس کے اعلیٰ حکام پاکستان کا دورہ کریں گے تاکہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان کشیدگی پر بات چیت کی جا سکے۔ پاکستان نے 14 نومبر کو ترکیہ اور دوحہ کی ’مخلصانہ کوششوں‘ کا خیرمقدم کیا، مگر پیچیدگیوں کے باعث یہ وفد تاحال نہیں پہنچ سکا۔

گزشتہ ہفتے دفترِ خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت کی بحالی کا انحصار اس بات پر ہے کہ کابل کی حکومت سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، اور اہم علاقائی توانائی منصوبوں کا مستقبل بھی اسی شرط سے جڑا ہوا ہے کہ افغان حکومت دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی بند کرے۔



#پاکستان
#افغانستان
##سرحدی جھڑپیں