’بارش نہ ہوئی تو تہران کو خالی کرانا پڑسکتا ہے‘: ایران میں پانی کے بحران کی کیا وجہ ہے؟

15:2513/11/2025, جمعرات
جنرل13/11/2025, جمعرات
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے خبردار کیا کہ پانی کے بحران کی وجہ سے دارالحکومت تہران کو خالی کرانا پڑ سکتا ہے۔

اس سے پہلے جولائی کے مہینے میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے ایک بیان کہا تھا کہ ’اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے اور لوگوں نے پانی کا استعمال کنٹرول کرنے میں ساتھ نہ دیا تو ستمبر یا اکتوبر تک ڈیموں میں پانی نہیں ہوگا۔‘

ایران کے کئی شہروں میں گرمیوں کے موسم کے بعد اب تک بالکل بارش نہیں ہوئی جبکہ گرمیوں کے سیزن میں بھی شدید گرمی نے پانی کے مسائل کو سنگین بنا دیاہے۔

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے 31 میں سے 15 صوبوں میں ایک بوند بھی بارش نہیں پڑی۔ اس کے نتیجے میں ایران شدید خشک سالی کا شکار ہے اور پانی کی قلت اتنی بڑھ گئی ہے کہ حکومت کو عوام کے لیے پانی کی تقسیم محدود (راشننگ) کرنا پڑی ہے۔

تہران میں پانی کے ضیاع سے بچنے کے لیے حکومت نے وقفے وقفے سے پانی کی فراہمی پر پابندیاں لگائی ہیں یعنی کبھی پانی آتا ہے، کبھی بند کر دیا جاتا ہے تاکہ بچایا جا سکے۔

حکومت نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ پانی کے ٹینک اور پمپ لگا کر پانی ذخیرہ کریں تاکہ جب پانی کی فراہمی رک جائے تو ان کے پاس استعمال کے لیے کچھ پانی موجود ہو۔

یہ صورتحال تہران کے لوگوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے، کیونکہ شہر کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے صرف شہر میں تقریباً ایک کروڑ لوگ رہتے ہیں اور مجموعی آبادی تقریباً 1.8 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تہران کا پانی کا نظام بہت پرانا ہے، شہر کے مرکزی علاقوں میں رہنے والے لوگ کئی ماہ سے بغیر اطلاع کے پانی کی بندش کا سامنا کر رہے ہیں۔

ایران پچھلے چھ سالوں سے مسلسل خشک سالی (بارشوں کی کمی) کا شکار ہے، خاص طور پر تہران میں پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو گئے ہیں۔ حکام کے مطابق تہران کے شہریوں نے پچھلے سات مہینوں میں پانی کا استعمال 12 فیصد کم کیا ہے۔

ماہرِ ماحولیات عظم بہرامی کے مطابق عوام کے استعمال میں یہ کمی کافی نہیں ہے، کیونکہ ایران میں پانی کا سب سے زیادہ (تقریباً 80 سے 90 فیصد) استعمال زراعت کے شعبے میں ہوتا ہے۔ جب تک زراعت اور دیگر بڑے شعبے ترجیحی بنیادوں پر زیادہ پانی لیتے رہیں گے، تب تک پانی بچانے کے اقدامات زیادہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔


پانی کا بحران کیوں ہے؟

پانی کی کمی کے اس مسئلے کی جڑیں کئی عوامل سے جڑی ہیں۔ انجینئرز اس کی وجہ دہائیوں سے جاری پانی کی خراب مینیجمنٹ اور سپلائی اور ڈیمانڈ میں بڑھتے فرق کو قرار دیتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیاں بھی صورتِ حال کو مزید خراب کر رہی ہیں۔

پانی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اس بحران میں بد انتظامی کی وجہ سے پھنسا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی یونیورسٹی برائے پانی، ماحول اور صحت کے ڈائریکٹر کاویہ مدانی نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران جیسے خشک ملک میں پانی ویسے ہی کم یاب ہے۔ لیکن اس بار فرق یہ ہے کہ یہ کمی تہران کو متاثر کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پانی کا استعمال کم نہ کیا گیا تو ایک کروڑ لوگوں کا شہر تہران میں پانی مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔ ہم ’ڈے زیرو‘ یعنی وہ دن جب تہران کے بڑے حصے میں پانی بالکل ختم ہو جائے گا، سے چند ہفتے دور ہیں۔

کاویہ مدانی کے مطابق تہران کے کئی علاقوں میں پانی ٹینکروں کے ذریعے پہنچایا جا رہا ہے اور جو لوگ ٹینکر کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں وہ اپنے ٹینکوں میں پانی بھر کر رکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتِ حال نئی ہے، ہم نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

سی این این کے مطابق یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں انوائرمنٹل انجینئرنگ اینڈ ارتھ سسٹم کے پروفیسر عامر آغاکوچک کہتے ہیں کہ انسانی سرگرمیاں جیسے زمین سے زیادہ مقدار میں پانی نکالنا، زراعت میں پانی کا زیادہ استعمال اور شہری علاقوں میں پانی کے استعمال پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے یہ صورتِ حال پیدا ہوئی ہے جسے ہم ’واٹر بینکرپسی‘ یعنی پانی کا دیوالیہ نکلنا کہہ سکتے ہیں۔

کاویہ مدانی کا بھی کہنا تھا کہ یہ اب بحران نہیں رہا بلکہ دیوالیہ ہی نکل گیا ہے۔ کچھ نقصان ایسے ہوئے ہیں جو واپس نہیں ہو سکتے۔

تہران میں پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے زمین سے اتنی زیادہ مقدار میں پانی نکالا گیا ہے کہ شہر کے کئی علاقوں میں زمین دھنس رہی ہیں۔ بعض اوقات ایک سال میں 10 انچ تک بھی زمین دھنس رہی ہے۔

ایران کی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق اس صورتِ حال کو مزید خراب کیا ہے ماحولیاتی تبدیلیوں نے۔ ایران میں اس سال 40 فی صد کم بارشیں ہوئی ہیں اور تہران کی ریجنل واٹر کمپنی نے کہا ہے کہ جو ڈیم تہران میں پانی سپلائی کرتے ہیں، ان میں صرف 21 فی صد پانی ہے۔

ایران کے وزیرِ توانائی عباس علی آبادی نے ’مہر نیوز‘ کو بتایا کہ ملک کے 31 میں سے 30 صوبے پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

کاویہ مدانی کا کہنا ہے کہ حکومت اس وقت نئے واٹر ٹرانسفر پروجیکٹس جیسے ہنگامی اقدامات کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیکنیکی حل جیسے پانی کی ڈی سلینیشن (نمکین پانی کو قابلِ استعمال بنانا) اور استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کرنے جیسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات بھی مسئلے کی جڑ کو نہیں بلکہ اس کی علامات کو ختم کر سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پوری معیشت کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوگا اور اسے پانی کا زیادہ استعمال کرنے والی زراعت سے دور کر کے سروسز اور ان انڈسٹریوں کی طرف لے جانا ہوگا جو پانی کم استعمال کرتی ہیں۔ ایران میں پانی کا 90 فی صد استعمال زراعت میں ہوتا ہے۔

فی الحال ایران میں لوگ بارشوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ مدانی کا کہنا ہے کہ اگر تہران ستمبر تک پانی کا استعمال کنٹرول کر لیتا ہے تو امکان ہے کہ بارش ہو جائے گی اور پانی مکمل ختم ہونے کی صورتِ حال سے بچا جا سکے گا۔


(یہ تفصیلات سی این این اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)
##ایران
##پانی
##بحران