
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں پانی کے زیادہ استعمال سے خبردار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے اور لوگوں نے پانی کا استعمال کنٹرول کرنے میں ساتھ نہ دیا تو ستمبر یا اکتوبر تک ڈیموں میں پانی نہیں ہوگا۔
ایران میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایرانی دارالحکومت تہران اس دن سے صرف چند ہفتے دور ہے جب وہاں پانی مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔
ایران کے بڑے پانی کے ذخائر سکڑ رہے ہیں اور انتظامیہ کم پانی استعمال کم کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔ شہری پانی محفوظ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
’تہران میں ستمبر تک پانی نہیں ہوگا‘
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں پانی کے زیادہ استعمال سے خبردار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہی صورتِ حال رہی تو تہران میں ستمبر تک پانی بالکل ختم ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر تہران میں ہم نے فوری اقدامات نہ کیے اور لوگوں نے پانی کا استعمال کنٹرول کرنے میں ساتھ نہ دیا تو ستمبر یا اکتوبر تک ڈیموں میں پانی نہیں ہوگا۔
ایرانی صدر نے پیر کو اپنی کابینہ کے اجلاس میں بھی کہا تھا کہ اگر ہم نے آج ہنگامی فیصلے نہ کیے تو ہمیں مستقبل میں ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا جو پھر حل نہیں ہو سکے گی۔
پانی کا استعمال روکنے کے لیے چھٹی
گزشتہ ہفتے ایرانی حکومت نے تہران صوبے اور کئی دیگر علاقوں میں ایک دن کی چھٹی دی تاکہ پانی اور بجلی کو بچایا جا سکے۔
حکومت کی ترجمان فاطمہ مہاجرانی نے پیر کو ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ حکومت تہران کے لوگوں کو ایک ہفتے کی چھٹی دینے کا سوچ رہی ہے تاکہ لوگ عارضی طور پر شہر سے باہر چلے جائیں اور یہاں پانی کی ڈیمانڈ کم ہو سکے۔
ایران خشک سالی کے ایک بدترین دور سے گزر رہا ہے اور مسلسل پانچ سالوں سے خشک سالی کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک شدید گرمی کی بھی لپیٹ میں ہے۔
وسائل کے ناقص انتظام اور حد سے زیادہ استعمال کے باعث ایران کو زیادہ طلب کے مہینوں میں بار بار بجلی، گیس اور پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
تہران صوبے کے گورنر نے پیر کو کہا کہ بحران کے پیشِ نظر انتظامیہ نے تہران میں پانی کا پریشر تقریباً آدھا کر دیا ہے جس کی وجہ سے 80 فی صد گھرانے متاثر ہوئے ہیں۔
پانی کا بحران کیوں ہے؟
پانی کی کمی کے اس مسئلے کی جڑیں کئی عوامل سے جڑی ہیں۔ انجینئرز اس کی وجہ دہائیوں سے جاری پانی کی خراب مینیجمنٹ اور سپلائی اور ڈیمانڈ میں بڑھتے فرق کو قرار دیتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیاں بھی صورتِ حال کو مزید خراب کر رہی ہیں۔
پانی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اس بحران میں بد انتظامی کی وجہ سے پھنسا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی یونیورسٹی برائے پانی، ماحول اور صحت کے ڈائریکٹر کاویہ مدانی نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران جیسے خشک ملک میں پانی ویسے ہی کم یاب ہے۔ لیکن اس بار فرق یہ ہے کہ یہ کمی تہران کو متاثر کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پانی کا استعمال کم نہ کیا گیا تو ایک کروڑ لوگوں کا شہر تہران میں پانی مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔ ہم ’ڈے زیرو‘ یعنی وہ دن جب تہران کے بڑے حصے میں پانی بالکل ختم ہو جائے گا، سے چند ہفتے دور ہیں۔
کاویہ مدانی کے مطابق تہران کے کئی علاقوں میں پانی ٹینکروں کے ذریعے پہنچایا جا رہا ہے اور جو لوگ ٹینکر کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں وہ اپنے ٹینکوں میں پانی بھر کر رکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتِ حال نئی ہے، ہم نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
سی این این کے مطابق یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں انوائرمنٹل انجینئرنگ اینڈ ارتھ سسٹم کے پروفیسر عامر آغاکوچک کہتے ہیں کہ انسانی سرگرمیاں جیسے زمین سے زیادہ مقدار میں پانی نکالنا، زراعت میں پانی کا زیادہ استعمال اور شہری علاقوں میں پانی کے استعمال پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے یہ صورتِ حال پیدا ہوئی ہے جسے ہم ’واٹر بینکرپسی‘ یعنی پانی کا دیوالیہ نکلنا کہہ سکتے ہیں۔
کاویہ مدانی کا بھی کہنا تھا کہ یہ اب بحران نہیں رہا بلکہ دیوالیہ ہی نکل گیا ہے۔ کچھ نقصان ایسے ہوئے ہیں جو واپس نہیں ہو سکتے۔
تہران میں پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے زمین سے اتنی زیادہ مقدار میں پانی نکالا گیا ہے کہ شہر کے کئی علاقوں میں زمین دھنس رہی ہیں۔ بعض اوقات ایک سال میں 10 انچ تک بھی زمین دھنس رہی ہے۔
ایران کی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق اس صورتِ حال کو مزید خراب کیا ہے ماحولیاتی تبدیلیوں نے۔ ایران میں اس سال 40 فی صد کم بارشیں ہوئی ہیں اور تہران کی ریجنل واٹر کمپنی نے کہا ہے کہ جو ڈیم تہران میں پانی سپلائی کرتے ہیں، ان میں صرف 21 فی صد پانی ہے۔
ایران کے وزیرِ توانائی عباس علی آبادی نے ’مہر نیوز‘ کو بتایا کہ ملک کے 31 میں سے 30 صوبے پانی کی قلت کا شکار ہیں۔
کاویہ مدانی کا کہنا ہے کہ حکومت اس وقت نئے واٹر ٹرانسفر پروجیکٹس جیسے ہنگامی اقدامات کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیکنیکی حل جیسے پانی کی ڈی سلینیشن (نمکین پانی کو قابلِ استعمال بنانا) اور استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کرنے جیسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات بھی مسئلے کی جڑ کو نہیں بلکہ اس کی علامات کو ختم کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پوری معیشت کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوگا اور اسے پانی کا زیادہ استعمال کرنے والی زراعت سے دور کر کے سروسز اور ان انڈسٹریوں کی طرف لے جانا ہوگا جو پانی کم استعمال کرتی ہیں۔ ایران میں پانی کا 90 فی صد استعمال زراعت میں ہوتا ہے۔
فی الحال ایران میں لوگ بارشوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ مدانی کا کہنا ہے کہ اگر تہران ستمبر تک پانی کا استعمال کنٹرول کر لیتا ہے تو امکان ہے کہ بارش ہو جائے گی اور پانی مکمل ختم ہونے کی صورتِ حال سے بچا جا سکے گا۔
(یہ تفصیلات سی این این اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)