
لیبیا کے آرمی چیف محمد علی احمد الحداد ترکیہ میں ہونے والے طیارہ حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ وہ ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ سے لیبیا روانہ ہوئے تھے اور پرواز کے کچھ ہی دیر بعد ان کا طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا۔
لیبیا کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت نے آرمی چیف کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاز میں سوار وفد کے چار افراد اور عملہ بھی ان کے ساتھ ہی ہلاک ہو گئے ہیں۔
لیبیا کے وزیرِ اعظم عبدالحمید دبیبہ نے اپنے بیان میں کہا کہ آرمی چیف انقرہ کا سرکاری دورہ مکمل کرنے کے وطن واپس لوٹ رہے تھے جب یہ افسوس ناک حادثہ ہوا۔ یہ لیبین قوم، فوج اور عوام کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ لیبین حکومت نے ملک میں تین روزہ سوگ کا بھی اعلان کیا ہے۔
لیبیا کی فوج کے سربراہ فالکن 50 نامی جٹ طیارے میں سوار تھے۔ یہ جہاز 1988 کا بنا ہوا ہے۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ جہاز کا ملبہ انقرہ کے ایئرپورٹ سے 105 کلو میٹر دور ایک دیہات سے ملا ہے۔
حادثہ کیسے پیش آیا؟
ترکیہ کے وزیرِ داخلہ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں نے کہا ہے کہ 'فالکن 50' بزنس جیٹ کے انقرہ ایئرپورٹ سے ٹیک آف کے 19 منٹ کے بعد اُس سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ ان کے بقول رابطہ منقطع ہونے سے قبل پائلٹ نے ہنگامی لینڈنگ کی درخواست کی تھی۔
لیبیا کے صدارتی محل کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ جہاز نے منگل 23 دسمبر کو انقرہ سے مقامی وقت کے مطابق رات 8 بج کر 17 منٹ پر اڑان بھری تھی۔ جہاز کا 8 بج کر 33 منٹ پر کنٹرول ٹاور سے دوبارہ رابطہ ہوا جس میں پائلٹ نے تیکینکی وجوہات کی بنا پر ہنگامی لینڈنگ کی اجازت مانگی۔
اس دوران جب ایئرپورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کی تیاری کی جا رہی تھی، جہاز تیزی سے نیچے آنے لگا اور 8 بج کر 36 منٹ پر یعنی پرواز کے 19 منٹ کے بعد ریڈار سے غائب ہو گیا اور کنٹرول ٹاور کا جہاز سے رابطہ منقطع ہو گیا۔
جہاز کریش ہونے کا اندازہ ہونے کے بعد ترک حکومت نے اس کی تلاش کے لیے آپریشن شروع کیا اور بعد ازاں طیارے کا ملبہ انقرہ کے جنوب مغربی علاقے سے مل گیا۔ حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات شروع ہو گئی ہیں۔
حادثے کی تحقیقات کے لیے لیبیا اپنا ایک وفد انقرہ بھجوا رہا ہے۔ لیبیا کے وزیر برائے اطلاعات محمد عمار الافیی کے مطابق 'اب تک کی رپورٹس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تیکنیکی مسائل کی وجہ سے جہاز حادثے کا شکار ہوا۔'






