
امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگون کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چائنہ نے ممکنہ طور پر 100 سے زیادہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل اپنی 'سائلو فیلڈز' میں تیار حالت میں رکھے ہوئے ہیں اور وہ ہتھیاروں پر کنٹرول کے لیے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
سائلو فیلڈز میزائلوں کی لانچنگ کے لیے زیرِ زمین بنائی گئی جگہ کو کہا جاتا ہے۔ یہ زیرِ زمین بنایا گیا ایک ایسا عمودی ڈھانچہ ہوتا ہے جہاں میزائلوں کو چھپا کر اور محفوظ رکھا جاتا ہے اور وہیں سے لانچ بھی کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ممکنہ طور پر چائنہ اور روس کے ساتھ مل کر جوہری ہتھیاروں میں کمی پر کام کر رہے ہیں۔ تاہم رائٹرز کے مطابق پینٹاگون کی رپورٹ کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ بیجنگ اس میں دلچسپی لیتا دکھائی نہیں دیتا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'ہمیں بیجنگ کی طرف سے ایسے کوئی اشارے نہیں ملے کہ وہ ایسے اقدامات یا ہتھیاروں پر کنٹرول سے متعلق مذاکرات کے لیے مزید جامع اقدامات کی کوشش کر رہا ہے۔'
رپورٹ کے مطابق چائنہ نے ممکنہ طور پر منگولیا کی سرحد کے ساتھ قائم اپنی 'سائلو فیلڈز' میں تین مقامات پر 100 سے زیادہ انٹر کانٹی نینٹل بیلسٹک میزائل لوڈ کر رکھے ہیں۔ پینٹاگون نے اس سے قبل سائلو فیلڈز کی موجودگی کی تصدیق کی تھی لیکن ان میں میزائلوں کی موجودگی سے متعلق کچھ نہیں کہا تھا۔
پینٹاگون نے اس رپورٹ سے متعلق تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
چائنہ کے واشنگٹن میں سفارت خانے نے کہا ہے کہ بیجنگ نے اپنی دفاعی نیوکلیئر حکمتِ عملی کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس نے اپنی جوہری قوت کو اس کم سے کم سطح پر رکھا ہے جو قومی سلامتی کے لیے درکار ہے۔ اور چائنہ اپنے اس عزم پر قائم ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے ٹیسٹس کو معطل رکھے گا۔
پینٹاگون کی یہ رپورٹ ابھی قانون سازوں کو نہیں بھجوائی گئی ہے اور اس میں تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چائنہ کے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر میں اضافہ گزشتہ برسوں کی نسبت 2024 سے سست ہوا ہے۔ تاہم چائنہ اپنی جوہری قوت میں اضافہ جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ 2030 تک 1000 جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے اپنے ہدف کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔
چائنہ کا کہنا ہے کہ وہ صرف دفاع کے لیے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے عزم پر کاربند ہے اور جوہری ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کی 'نو فرسٹ یوز' پالیسی رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ عمل کب سے شروع ہوگا۔
پینٹاگون کی رپورٹ میں چائنہ کی عسکری تیاریوں کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'بیجنگ کو توقع ہے کہ وہ 2027 کے اواخر تک تائیوان میں جنگ لڑنے اور جیتنے میں کامیاب ہو جائے گا۔'
چائنہ تائیوان کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے لیکن اس نے کبھی اسے بزورِ طاقت حاصل کرنے کی بات نہیں کی۔
تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیجنگ اپنے عسکری آپشنز پر غور کر رہا ہے کہ تائیوان کو کیسے 'وحشیانہ طاقت' سے حاصل کیا جائے۔ اس میں ایک آپشن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چائنہ سے 1500 یا 2000 ناٹیکل میل کے فاصلے سے حملے کیے جائیں۔
پینٹاگون کی یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب دو ماہ بعد ہی امریکہ اور روس کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی روک تھام کا معاہدہ ختم ہو رہا ہے۔ '2010 نیو اسٹارٹ اسٹرٹیجی' دونوں ملکوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ 700 ڈلیوری سسٹمز پر صرف 1550 جوہری ہتھیار رکھیں گے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن اور سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے فروری 2021 میں اس معاہدے کی مدت میں پانچ سال کی توسیع کی تھی جو آئندہ سال ختم ہو جائے گی اور اس میں مزید توسیع کی گنجائش بھی نہیں ہے۔
کئی ماہرین یہ توقع ظاہر کر رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ختم ہونے سے جوہری ہتھیاروں کی ایک نئی سہ فریقی دوڑ شروع ہو جائے گی۔






