
غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں ہفتے کی رات بھر ہونے والی شدید بارش کے چند ہی منٹ بعد علاقوں میں پانی کھڑا ہونا شروع ہوا اور ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کے خیمے پانی میں ڈوب گئے۔
سرد موسم میں بارشوں سے غزہ کے رہائشیوں کے مسائل اور مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں کیوں کہ ان کے پاس اس صورتِ حال سے بچاؤ کا سامان موجود نہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق بارشوں سے متاثر ہونے والوں میں شامل 47 سالہ جمیل الشرافی کا کہنا ہے کہ ان کے بچے سردی اور خوف سے کانپ رہے ہیں۔
اتوار کو اے ایف پی سے گفتگو میں الشرافی نے بتایا کہ ’میرے بچے سردی اور ڈر سے کانپ رہے ہیں۔ چند ہی منٹوں میں ہمارا خیمہ مکمل طور پر برساتی پانی میں ڈوب گیا۔ ہمارے کمبل، بستر وغیرہ سب بھیگ گئے اور راشن کا سامان بھی خراب ہوگیا۔‘

'غزہ کی 22 لاکھ آبادی میں 15 لاکھ بے گھر ہیں'
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی پٹی میں تقریباً 80 فیصد عمارتیں جنگ کے باعث تباہ یا شدید متاثر ہو چکی ہیں۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ان کا مکمل انحصار اب امداد پر ہے۔
فلسطینی این جی او نیٹ ورک کے ڈائریکٹر امجد الشوا نے کہا ہے کہ غزہ کے 22 لاکھ لوگوں میں سے 15 لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہیں۔

اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے ادارے 'انروا' نے کہا ہے کہ خراب موسم نے غزہ کے عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
انروا کے سربراہ فلپ لازارینی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’غزہ کے لوگ کھنڈرات کے درمیان کمزور اور پانی سے بھرے خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ امدادی سامان کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔‘
پچھلے مہینے بھی غزہ کو شدید بارشوں اور سردی کی ایسی ہی لہر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جس کے نتیجے میں جنگ سے متاثرہ عمارتیں گرنے اور شدید سردی کی وجہ سے کم از کم 18 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔






