
مارک کارنی لبرل پارٹی کے نئے سربراہ اور کینیڈا کے وزیرِ اعظم منتخب ہو گئے ہیں۔
مارک کارنی کو جسٹن ٹروڈو کی جگہ کینیڈا کی لبرل پارٹی کا نیا سربراہ منتخب کیا گیا۔ ان کا انتخاب ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب کینیڈ کے امریکہ کے ساتھ تاریخی کشیدگی اور ممکنہ تجارتی جنگ کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
ماہرِ معیشت اور سابق بینکر مارک کارنی آئندہ چند دنوں میں وزیرِ اعظم کے طور پر حلف اٹھائیں گے۔
مارک کارنی پہلی بار کینیڈا کی سیاست میں قدم رکھ رہے ہیں اور وہ ملک کے سب سے بڑے عہدے یعنی وزیرِاعظم کے منصب پر فائز ہو رہے ہیں، جبکہ ملک میں جلد ہی عام انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔
وہ ایک ایسی پارٹی کی قیادت بھی سنبھال رہے ہیں جسے کئی سالوں سے عوامی حمایت میں کمی اور سماجی و معاشی مسائل سے نمٹنے پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔ تاہم اب پارٹی کو ایک نئی سیاسی طاقت مل رہی ہے۔
انہوں نے پہلے ہی مرحلے میں 85.9 فیصد ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ کارنی نے اتوار کی شام وکٹری سپیچ میں کہا کہ ’میں دن رات ایک مقصد کے ساتھ کام کروں گا، اور میرا مقصد تمام شہریوں کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم کینیڈا بنانا ہے۔‘
آکسفورڈ گریجویٹ، سینٹرل بینکر
مارک کارنی کینیڈا میں ہی پیدا ہوئے اور یہیں ان کی پرورش ہوئی۔ اُن کا سیاست میں کوئی خاص تجربہ نہیں ہے، لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو موجودہ معاشی بحران اور غیر یقینی صورتحال سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کینیڈا کو اس وقت شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے، خاص طور پر جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈین مصنوعات پر بھاری ٹیرف 4 مارچ سے نافذ ہو چکے ہیں۔
کارنی نے ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کیں اور ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سرمایہ کاری کی مشہور کمپنی گولڈمین ساکس میں ملازمت کی۔
حالیہ برسوں میں وہ بروک فیلڈ ایسٹ مینجمنٹ کے چیئرمین رہے، جہاں انہوں نے ایسے سرمایہ کاری منصوبوں کی قیادت کی۔ لیکن کارنی اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کی اصل مہارت بینکنگ کے شعبے میں بحرانوں سے نمٹنے کی ہے اور یہی صلاحیت انہیں اس قابل بناتی ہے کہ وہ ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کے اثرات سے کینیڈا کی معیشت کو بچا سکیں۔
59 سالہ مارک کارنی نے 2008 کے عالمی مالی بحران کے دوران بینک آف کینیڈا کے گورنر کے طور پر کام کیا۔ انہیں فوری اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے، جنہوں نے کینیڈا کو شدید معاشی گراوٹ سے بچایا۔
2013 میں وہ بینک آف انگلینڈ کے سربراہ بنے اور 2020 تک اس عہدے پر فائز رہے، یہ وہی سال تھا جب برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کی۔
سیاسی تجربے کی کمی
اگرچہ مارک کارنی کی معاشی مہارت پر زیادہ تر لوگ متفق ہیں، لیکن ان کے سیاسی تجربے کی کمی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
وہ ماضی میں جسٹن ٹروڈو کے اقتصادی مشیر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ ٹروڈو نے اس وقت استعفیٰ دیا جب ان کی حکومت کو ( خاص طور پر رہائشی بحران اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے کی وجہ سے) شدید عوامی غصے کا سامنا کرنا پڑا۔
مارک کارنی نے اس سے پہلے کبھی الیکشن لڑنے کے لیے انتخابی مہم نہیں چلائی۔ جب وہ لبرل پارٹی کے سربراہ بنے، تو ان کا زیادہ تر وقت عوام کو اپنے بارے میں بتانے اور اپنی شناخت بنانے میں گزرا۔
میک گِل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیئل بیلان نے مارک کارنی کو ’ ماہر ٹیکنوکریٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ پسِ پردہ کام کرنے والے مشیر رہے ہیں۔
کارنی نے اپنی الیکشن مہم کے دوران کئی بڑے وعدے کیے ہیں، جن میں حکومتی اخراجات میں کمی، رہائش کے شعبے میں سرمایہ کاری، کینیڈا کی تجارت کو مختلف ممالک تک پھیلانا اور کچھ وقت کے لیے امیگریشن کی تعداد کو محدود کرنا شامل ہے۔
مارک کارنی اقوامِ متحدہ میں ماحولیاتی بہتری اور مالیاتی امور کے لیے خصوصی نمائندے کے طور پر کام کر چکے ہیں، وہ اس خیال کے بڑے حامی ہیں کہ نجی کمپنیاں اور کاروباری ادارے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کریں اور کاربن کے اخراج کو مکمل طور پر ختم کریں۔
کارنی نے گزشتہ ماہ لبرل پارٹی کی قیادت کے دیگر امیدواروں کے ساتھ ایک مباحثے کے دوران کہا کہ کہ ’مجھے بحرانوں سے نمٹنا آتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ مضبوط معیشت کیسے بنائی جاتی ہے‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے پاس ایک پلان ہے، ایک ایسا پلان جو آپ کی جیب میں زیادہ پیسے واپس ڈالے، کاروباری کمپنیوں کو مزید کامیاب بنائے گا اور ایک ایسی مضبوط معیشت قائم ہوگی جو عوام کے لیے فائدہ مند ہو۔‘
ٹرمپ فیکٹر
اس وقت کینیڈین عوام کو ملکی معاملات سے زیادہ کینیڈا-امریکہ تعلقات کی غیر یقینی صورتحال اور ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں پر تشویش ہے۔
درحقیقت واشنگٹن کے ساتھ ممکنہ تجارتی جنگ کے خدشات نے پچھلے چند ہفتوں میں لبرل پارٹی کی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔ رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے مطابق کنزرویٹو پارٹی اور لبرلز کے درمیان 26 پوائنٹس کا فرق اب کم ہو گیا ہے۔
کینیڈا اور امریکہ کے تعلقات کا مستقبل آئندہ انتخابات میں سب سے اہم سوال بننے جا رہا ہے۔ عوام اس معاملے پر تقریباً برابر تقسیم ہیں کہ کون سا رہنما ٹرمپ کے ساتھ تعلقات بہتر طریقے سے سنبھال سکتا ہے۔
اس ہفتے اینگس ریڈ انسٹیٹیوٹ کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق مارک کارنی کو 9 پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔ 43 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ معاملات سنبھالنے کے لیے سب سے زیادہ کارنی پر بھروسا کرتے ہیں، جبکہ 34 فیصد نے مخالف سیاستدان پوئیلیور کو ترجیح دی۔
اب جب کہ مارک کارنی نے پارٹی کی قیادت سنبھال لی ہے، یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا لبرلز اپنی حالیہ سیاسی رفتار کو برقرار رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔
یہ بھی واضح نہیں کہ کیا وہ عوام میں حکومت سے اُکتاہٹ کے احساس پر قابو پا سکیں گے۔ عام طور پر کینیڈا میں کوئی بھی وفاقی جماعت 10 سال سے زیادہ حکومت میں نہیں رہتی، جبکہ لبرلز 2015 سے اقتدار میں ہیں۔
صحافی کیتھرین تسالیکِس کا کہنا ہے کہ ’زیادہ تر مغربی ممالک اور جی 7 ممالک میں لوگ موجودہ حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔‘