بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے): یہ تنظیم کیا ہے، کیا مقاصد ہیں اور کیسے مضبوط ہوئی؟

09:3312/03/2025, بدھ
جنرل12/03/2025, بدھ
ویب ڈیسک
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا مقصد بلوچستان کو پاکستان سے آزاد کرانا ہے۔
تصویر : سی ایس سی آر / فائل
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا مقصد بلوچستان کو پاکستان سے آزاد کرانا ہے۔

یہ گروہ کئی دہائیوں سے پاکستانی حکومت کے خلاف لڑ رہا ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ریاست بلوچستان کے قدرتی وسائل (گیس، معدنیات وغیرہ) کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔

کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے منگل کے روز صوبہ بلوچستان کے ضلع سبی میں ایک ٹرین پر حملے کے دوران مسافروں کو یرغمالی بنا لیا ہے اور ساتھ ہی یرغمالیوں کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بی ایل اے ان متعدد باغی گروہوں میں سب سے مضبوط ہے جو طویل عرصے سے افغانستان اور ایران کی سرحد کے قریب صوبے بلوچستان میں سرگرم ہیں۔ یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، یعنی یہاں معدنیات، تیل، گیس، اور دیگر قیمتی ذخائر موجود ہیں۔

چین نے اس علاقے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے، جن میں سی پیک اور اور گوادر پورٹ جیسے اہم منصوبے بھی شامل ہیں۔ بی ایل اے اور دیگر باغی گروپس ان منصوبوں کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے مقامی بلوچ عوام کو فائدہ نہیں ہو رہا۔

پہلے یہ گروپ مخصوص شخصیات کو نشانہ بنانے یا پائپ لائنوں کو نقصان پہنچانے جیسے چھوٹے حملے کرتا تھا، لیکن اب یہ بڑے پیمانے پر کارروائیاں کر رہا ہے۔

شدت پسندوں نے نئی حکمت عملی اپنائی ہے، جس کا مقصد زیادہ لوگوں کو ہلاک یا زخمی کرنا اور پاکستانی فوج کو زیادہ نقصان پہنچانا ہے۔


بلوچستان لیبریشن آرمی کیا ہے؟

بی بی سی اردو میں 2019 میں شائع ہونے والے ایک رپورٹ کے مطابق یہ گروپ پہلی بار سنہ 1970 کی دہائی میں وجود میں آیا تھا جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف بغاوت شروع کی گئی تھی۔

سنہ 2006 میں حکومتِ پاکستان نے بلوچ لبریشن آرمی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا اور حکام کی جانب سے بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کے بیٹے نوابزادہ بالاچ مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جاتا رہا۔


بی ایل اے کے مقاصد کیا ہیں؟

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا مقصد بلوچستان کو پاکستان سے آزاد کرانا ہے۔

یہ گروہ کئی دہائیوں سے پاکستانی حکومت کے خلاف لڑ رہا ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ریاست بلوچستان کے قدرتی وسائل (گیس، معدنیات وغیرہ) کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے اور مقامی لوگوں کو اس کا حق نہیں دے رہی۔

بی ایل اے سب سے بڑا علیحدگی پسند گروہ ہے جو اس مقصد کے لیے ملک میں دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

بلوچستان کا پہاڑی سرحدی علاقہ ان شدت پسندوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے، جہاں وہ چھپ سکتے ہیں اور اپنی عسکری تربیت حاصل کرتے ہیں۔ یہ علاقہ ان کے لیے ایک بیس کیمپ جیسا ہے، جہاں سے وہ اپنی کارروائیاں کرتے ہیں اور حملے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔


بی ایل اے زیادہ خطرناک کیسے بنا؟

2022 میں بی ایل اے نے فوج اور نیوی کے اڈوں پر حملہ کیا تھا۔

یہ گروہ خواتین خودکش حملہ آوروں کو بھی استعمال کر چکا ہے، جیسے کہ کراچی کی ایک یونیورسٹی میں چینی شہریوں پر حملہ اور بلوچستان میں ایک بم دھماکہ بھی شامل ہے۔

گزشتہ ہفتے بلوچ قوم پرست گروہوں کے ایک اتحاد نے اعلان کیا تھا کہ وہ تمام باغی گروہوں کو ایک ساتھ ملانے اور ایک مضبوط جنگی تنظیم بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ایک ساتھ کارروائی کرسکیں۔

بی ایل اے کا ایک گروہ (بی ایل اے آزاد، جو پہلے سرگرم نہیں تھا) اب دوبارہ حملے کرنے اور کارروائیاں شروع کرنے لگا ہے۔


بی ایل اے کس کو نشانہ بناتا ہے؟

بی ایل اے زیادہ تر بلوچستان میں انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتا ہے، لیکن دوسرے علاقوں (خاص طور پر کراچی) میں بھی حملے کر چکا ہے۔

یہ شدت پسند پاکستانی فوج اور چینی مفادات (خاص طور پر گوادر کی بندرگاہ) پر حملے کرتے ہیں، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ چین، پاکستان کے ساتھ مل کر بلوچستان کے وسائل کا استحصال کر رہا ہے۔

بی ایل اے کے حملوں میں خطے میں کام کرنے والے چینی شہری بھی مارے جا چکے ہیں، اور یہ گروہ کراچی میں چینی قونصل خانے پر بھی حملہ کر چکا ہے۔

بی ایل اے پچھلے سال ایران اور پاکستان کے درمیان ہونے والے سرحدی حملوں کا بھی حصہ تھا، جہاں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر شدت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا تھا، جس سے جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔



بلوچستان کی اہمیت

بلوچستان چائنہ کے 65 ارب ڈالر کے اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کا ایک اہم حصہ ہے، جو چینی صدر شی جن پنگ کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ کا حصہ ہے۔

یہاں ریکوڈک سمیت کئی اہم کان کنی کے منصوبے موجود ہیں، جسے کینیڈین کمپنی ’بیریک گولڈ‘ چلا رہی ہے۔ ریکوڈک کو دنیا کی سب سے بڑی سونے اور تانبے کی کانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

چائنہ بھی بلوچستان میں ایک سونے اور تانبے کی کان کو آپریٹ کررہا ہے۔

بلوچستان میں کئی دہائیوں سے جاری بدامنی کی وجہ سے یہاں عدم استحکام ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کو اپنے قیمتی وسائل استعمال کرنے میں سیکیورٹی مسائل کا سامنا ہے۔

یہ پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے، لیکن آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا ہے۔ اس کا ساحل بحیرہ عرب کے ساتھ لگتا ہے اور یہ خلیج عمان کے قریب ہے، جہاں سے دنیا کا اہم ترین آئل ٹریڈ روٹ ’اسٹریٹ آف ہرمز‘ گزرتا ہے۔

اسلام آباد میں اور بلوچستان میں سینکڑوں بلوچ کارکن، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، مبینہ جبری گمشدگیوں اور سیکیورٹی فورسز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں۔ حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

پاکستان کا الزام ہے کہ انڈیا اور افغانستان بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہے ہیں تاکہ چائنہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو نقصان پہنچایا جا سکے، تاہم دونوں ممالک ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔


کیا حکومت بی ایل اے کے دوبارہ ابھرنے کو روک سکتی ہے؟

یونیورسٹی آف کیمبرج میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے رفیع اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال صرف خفیہ معلومات (انٹیلی جنس) کی ناکامی کی وجہ سے نہیں، بلکہ ریاست اور بلوچ عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری کا نتیجہ بھی ہے۔

ان کے مطابق ’گزشتہ دہائی کے دوران بلوچستان ایک ایسی تجربہ گاہ بن گیا ہے جہاں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نگرانی میں سیاسی انجینئرنگ کی جا رہی ہے۔ 10 سالوں میں چھ مختلف وزرائے اعلیٰ تبدیل کیے گئے، جس کی وجہ سے وہاں ایک مستحکم جمہوری حکومت نہیں بنی، جس سے عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سیاسی عدم استحکام نے جمہوری عمل کو کمزور کر دیا ہے اور پارلیمانی سیاست کو ایک مؤثر سیاسی جدوجہد کے طریقے کے طور پر غیر مؤثر بنا دیا ہے۔

ان کے مطابق ریاست اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچ عسکریت پسندوں کو ہوا ہے، جو اب نوجوانوں کو خودکش حملوں کے تیار کررہی ہیں۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ بلوچستان میں سب کچھ ٹھیک ہے، حالانکہ حقیقت میں وہاں شدید بحران ہے اور ریاست کا کنٹرول کمزور ہو چکا ہے۔





#بی ایل اے
#پاکستان
#بلوچستان