شام پر امریکی پابندیاں ختم ہونے کا کیا مطلب ہوگا؟

07:4519/05/2025, پیر
جنرل19/05/2025, پیر
ویب ڈیسک
شام کے وزارتِ خارجہ نے اس اعلان کو ایک اہم موڑ اور شام کے لیے ایک ’بڑا موقع‘ قرار دیا ہے
تصویر : روئٹرز / فائل
شام کے وزارتِ خارجہ نے اس اعلان کو ایک اہم موڑ اور شام کے لیے ایک ’بڑا موقع‘ قرار دیا ہے

شام پر سے پابندیاں ہٹانے کے کئی معنی ہیں۔ جغرافیائی سیاست کے تناظر میں اس کا مطلب ہے کہ خطے میں استحکام کے لیے سعودی عرب اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

رواں ہفتے شامی عوام نئی امید لیے ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے اور جشن منایا۔ اس خوشی کی اہم وجہ امریکہ کی جانب سے شام پر عائد تمام پابندیاں ہٹانے کا اعلان تھا جو انہوں نے شام کے عبوری صدر احمد الشارع سے ملاقات سے پہلے کیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ شام پر گزشتہ 45 سال سے عائد بین الاقوامی پابندیاں مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کریں گے۔ جنگ زدہ ملک کے لیے یہ اعلان ایک روشن مستقبل کی نوید بن کر سامنے آیا۔

ٹرمپ نے منگل کے روز سعودی عرب میں خلیجی ریاستوں کے تین روزہ دورے کے دوران کہا کہ ’میں شام پر عائد تمام پابندیاں ہٹانے کا حکم دوں گا تاکہ انہیں آگے بڑھے اور عظمت چھو لینے کا موقع ملے۔‘

ٹرمپ نے یہ غیر معمولی فیصلہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی درخواست پر کیا، جنہوں نے ٹرمپ پر زور دیا کہ شام کو دوبارہ عالمی برادری میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے۔

امریکی صدر نے کہا کہ ’یہ ایک نئی حکومت ہے جو امید ہے کہ ملک کو مستحکم کرے گی اور امن قائم رکھے گی۔ یہی ہم شام میں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

اگر سادہ الفاظ میں بات کریں تو امریکی صدر نے وہ بات کہی جو عالمی ماہرین گزشتہ سال دسمبر میں بشار الاسد کے اقتدار ختم ہونے کے بعد سے کہہ رہے تھے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پابندیاں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف تھیں اور اب جب وہ نہیں رہے، تو یہ پابندیاں بے معنی ہو گئی ہیں۔

امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں نے شام کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچایا، جس کی وجہ سے ملک اور اس کے پڑوسی علاقوں میں عدم استحکام پیدا ہوا۔

اگر امریکی پابندیاں برقرار رہتی ہیں، تو شام کے پاس امریکی حریف ممالک جیسے ایران، روس اور چائنہ سے مدد مانگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔

شام کے وزارتِ خارجہ نے اس اعلان کو ایک اہم موڑ اور شام کے لیے ایک ’بڑا موقع‘ قرار دیا ہے، جس کے ذریعے شام استحکام اور تعمیر نو کے راستے پر جاسکتا ہے۔

ٹرمپ کی جانب سے شام پر سے پابندیاں ختم کرنے کا اعلان سعودی سفارت کاری کی بڑی کامیابی سمجھی جارہی ہے۔ جس سے یہ خیال کیا جارہا ہے کہ سعودی عرب خطے میں ایک طاقتور ملک ہے جس کا اثر و رسوخ اب بھی بہت مضبوط ہے۔

ولی عہد نے امریکی صدر کے ساتھ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کر کے شام پر پابندیاں ختم کروانے کی درخواست کی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام سعودی عرب اور خطے کی سلامتی کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔


امریکی پابندیاں ختم کرنے کے پیچھے کیا وجہ ہے؟

جرمن میڈیا ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق اب تک واضح نہیں ہے کہ پابندیوں میں نرمی صرف کچھ خاص شعبوں تک محدود ہوگی، جیسے بین الاقوامی انسانی امداد، بینکاری یا عام کاروبار، یا یہ کہ امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لیے کچھ شرائط بھی ہوں گی۔

یورپی یونین نے شام پر سے کچھ پابندیاں ہٹا دی ہیں، لیکن کچھ پابندیاں ابھی بھی برقرار ہیں۔ جمعرات کو یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کالاس نے شام پر پابندیوں میں مزید نرمی کی تجویز دی تھی۔

یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پروگرام کے ڈائریکٹر جولیئن بارنز-ڈےسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ’ہمیں ابھی دیکھنا ہے کہ آیا ٹرمپ صرف بیانات تک محدود ہوتے ہیں یا کوئی عملی اقدام بھی اٹھائیں گے۔ اور یقیناً اس عمل کو پورا ہونے میں توقعات سے زیادہ وقت لگے گا‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’پھر بھی، اگر امریکہ نے وہ اہم پابندیاں ختم کر دیں جس کا انحصار ملک میں سلامتی کے بہتر ہونے پر ہے، تو اس سے شام کو فوری طور پر درکار اقتصادی مدد ملنے میں آسانی ہو جائے گی۔ یہ مدد بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نئی حکومت کو اپنے کام کرنے میں سخت مشکلات پیش آئیں گی‘۔

پچھلے چھ مہینوں میں شام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئیں۔ دسمبر میں ملک کے آمر بشار الاسد کو باغی گروپوں کے اتحاد نے اقتدار سے ہٹایا، جس کی قیادت ’حیات تحریر الشام‘ گروپ کر رہا تھا۔ اس گروپ کی قیادت احمد الشارع کر رہے ہیں جو اب ملک کے عبوری صدر ہیں۔ اس واقعے نے تقریباً 14 سالہ خانہ جنگی کو ختم کر دیا۔ شام کی تعمیر نو پر تقریباً 400 بلین سے 1 ٹریلین ڈالر خرچ آ سکتا ہے۔

احمد الشارع نے وعدہ کیا ہے کہ نئی حکومت میں شام کے تمام سیاسی اور مذہبی گروہوں کو شامل کیا جائے گا۔ مگر ابھی بھی شک و شبہات موجود ہیں کیونکہ ملک میں کئی پرتشدد واقعات نے اکثریتی سنی آبادی کو اقلیتوں کے خلاف کھڑا کر دیا ہے اور واضح ہے کہ نئی حکومت کا ملک میں مکمل کنٹرول اور سلامتی ابھی قائم نہیں ہے۔

لیکن ٹرمپ کے خیال میں احمد الشارع (جو پہلے القاعدہ سے وابستہ تھے) ملک میں امن قائم کرسکتے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق وہ ’اصل لیڈ‘ ثابت ہوں گے۔


شام پر کون سی پابندیاں عائد ہیں؟

  1. 1979 میں شام کو امریکہ نے دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دیا تھا۔
  2. 2004 اور 2011 میں (خاص طور پر شام کی خانہ جنگی کے شروع ہونے کے بعد) پابندیاں مزید سخت کی گئیں۔
  3. ان پابندیوں میں شامی حکام کی جائیداد اور اثاثے امریکہ میں منجمد کر دیے گئے اور شام سے تیل اور تیل کی مصنوعات کی برآمد پر پابندی لگا دی گئی۔
  4. 2011 کے بعد شام کا عالمی معیشت سے رابطہ تقریباً ختم ہو گیا، لوگ بین الاقوامی بینک کارڈ استعمال نہیں کر پاتے اور درآمدات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
  5. 2019 میں ’سیزر شام سولین پروٹیکشن ایکٹ‘ کے تحت مزید پابندیاں عائد کی گئیں جو بشار الاسد حکومت اور اس کے حمایتیوں پر خاص طور پر عائد کی گئیں۔
  6. ان پابندیوں کو ختم کرنا آسان نہیں کیونکہ اس کے لیے امریکی کانگریس کی منظوری بھی ضروری ہے۔
  7. پابندیوں کے خاتمے سے شام کو عالمی معیشت میں واپس شامل ہونے اور سرمایہ کاری کا موقع ملے گا، کیونکہ اب تک ملک میں زیادہ تر لین دین نقد میں ہوتا ہے۔

امریکہ کی شام پر پابندیاں ہٹانے کے لیے شرائط:

ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر پابندیاں ہٹانے کے بدلے پانچ اہم کام کرنے کا کہا ہے، وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیویٹ نے بتایا کہ:

1۔ ابراہیم معاہدے پر دستخط کرکے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کیے جائیں۔

2۔ تمام غیر ملکی دہشت گردوں کو شام سے نکلنے کا حکم دیں۔

3۔ فلسطینی دہشت گردوں کو ملک بدر کریں۔

4۔ داعش کے دوبارہ ابھرنے کو روکنے میں امریکہ کی مدد کریں۔

5۔ شام کی حکومت کو نارتھ ایسٹ شام میں داعش کے زیرِ حراست قیدیوں کے کیمپوں اور جیلوں کی نگرانی اور ذمہ داری سنبھالنی ہوگی۔

ٹرمپ نے خود کہا ہے کہ شام اسرائیل کو تسلیم کرنے پر راضی ہو گیا ہے جب شام کی صورتحال بہتر ہو جائے گی۔

لیکن دمشق (شام کی حکومت) کی طرف سے ابھی تک کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی کہ وہ ابراہیم معاہدے (جو امریکہ کے ذریعے اسرائیل اور کچھ عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی معمول پر لانے کے لیے ہیں) میں شامل ہوگا یا نہیں۔

بین الاقوامی کرائسز گروپ کے سینئر تجزیہ کار نَنار ہوّاش کہتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات اہم ہوں گے کیونکہ اسرائیل بشار الاسد کے گرنے کے بعد سے شام میں امن خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

اسرائیل نے ابھی تک نئے شامی حکومت کے ساتھ ممکنہ سفارتی تعلقات پر کوئی سرکاری بیان نہیں دیا ہے۔

اسرائیل کو اس بات کی تشویش ہے کہ سابق شامی حکومت کے ایران اور حزب اللہ سے رابطے تھے اور اسے سرحدی حملوں کا خوف بھی ہے، جیسا کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے حملہ کیا تھا۔ اگر شامی حکومت کے ساتھ نئے سفارتی تعلقات قائم ہوئے، تو یہ اسرائیل کے ان خدشات کو کم کر سکتے ہیں۔


امریکہ کی پابندیاں ہٹانے سے شام میں کیا تبدیلی آئے گی؟

امریکہ-عرب تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ڈاکٹر دانیا عرب نیوز میں لکھتی ہیں کہ امریکہ کی جانب سے شام پر عائد پابندیاں ہٹانے کا مطلب ہے کہ وہ ممالک جو شام کی مدد کرنا چاہتے ہیں، اب بغیر کسی پابندی کے یہ کام کر سکتے ہیں۔ پابندیاں ختم ہونے کے بعد تباہ شدہ ملک کی تعمیر نو شروع ہو سکے گی۔

’صدر احمد الشارع نے امریکی کمپنیوں کو شامی تیل اور گیس میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔ جنگ کے بعد شام کی تعمیر نو سے معاشی ترقی ہوگی، اور پھر جنگی حالات کے دوران جو لوگ ملک چھوڑ گئے تھے وہ واپس آئیں گے‘۔

اس سے مختلف سیاسی اور مذہبی گروہ بھی متحد ہوں گے تاکہ وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کام کریں۔ تعمیر نو سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، جس سے نوجوانوں کو دہشت گردوں کا حصہ بننے سے روکنے میں مدد ملے گی۔ پابندیوں کا خاتمہ شام کو ایک مستحکم اور خوشحال ملک بنانے کا آغاز ہے۔

امریکہ کی جانب سے شام پر عائد پابندیوں کا خاتمہ لبنان کے لیے بھی خوشخبری ہے۔ لبنان پہلے ہی شامی پناہ گزینوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، جس سے اس کا کمزور انفراسٹرکچر مزید خراب ہو گیا ہے۔

اگرچہ بشار الاسد کی حکومت ختم ہو چکی ہے، لیکن خراب معاشی حالات کی وجہ سے شامی پناہ گزین واپس نہیں جا رہے تھے۔ اب جب پابندیاں ختم ہو گئی ہیں اور تعمیر نو کا عمل شروع ہو رہا ہے، تو شامیوں کے وطن واپسی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

اس سے شام اور لبنان کے تعلقات کو بھی بہتر ہوں گے، کیونکہ پناہ گزینوں کی واپسی دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑا مسئلہ تھا۔ شام میں ممکنہ معاشی ترقی کا فائدہ لبنان کو بھی ہوگا۔

ڈاکٹر دانیہ کہتی ہیں کہ تاہم پابندیوں کا خاتمہ صرف ایک شروعات ہے۔ شام میں اب بھی روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی حملے ہورہے ہیں۔ جب تک اسرائیل شامی علاقوں پر قابض ہے، شامی سرزمین پر بمباری کرتا رہے گا اور مختلف گروہوں اور اقلیتوں کو بدامنی پھیلانے کے لیے استعمال کرتا رہے گا، تب تک نہ تو اصل تعمیر نو ممکن ہے اور نہ ہی استحکام ممکن ہے۔

’شام پر پابندیاں ختم کرکے ٹرمپ انتظامیہ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ اسرائیل کی ہر بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وائٹ ہاؤس اب خطے میں استحکام کو اسرائیلی انتہاپسند حکومت کی خواہشات پر ترجیح دے رہا ہے۔ یہ شام کے حق میں ایک اہم اور مثبت قدم ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’امریکہ کو اسرائیل پر بھی دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ شام کو تنہا چھوڑ دے اور 1974 کے جنگ بندی معاہدے پر واپس چلا جائے‘۔

شام پر سے پابندیاں ہٹانے کے کئی معنی ہیں۔ جغرافیائی سیاست کے تناظر میں اس کا مطلب ہے کہ خطے میں استحکام کے لیے سعودی عرب اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں وہی اصل سفارتی اور سیاسی طاقت بن کر ابھرا ہے۔

یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل، نیتن یاہو اور اس کی پارٹی اب ٹرمپ انتظامیہ کے لیے اتنے اہم نہیں جتنے سمجھے جاتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر اس کا مطلب ہے کہ اب شامی عوام کو ایک مستحکم، خوشحال اور جمہوری ریاست کی تشکیل کا موقع ملا ہے، وہ ریاست جس کا وہ ہمیشہ خواب دیکھتے آئے ہیں۔


#شام
#مشرق وسطیٰ
#امریکا
#اسرائیل