
کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کینیڈا کو الحاق کرنے کی دھمکیاں لبرل پارٹی کی فتح کا سبب بنیں؟
کینیڈا کے عام انتخابات: لبرل پارٹی کے مارک کارنی جیت گئےوزیر اعظم مارک کارنی کی لبرل پارٹی نے پیر کے روز کینیڈا کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی، جو ایک حیران کن موڑ ثابت ہوا۔
یہ کامیابی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا کو الحاق کی دھمکیوں اور تجارتی جنگ کے بعد سامنے آئی۔
سرکاری نشریاتی ادارے سی بی سی اور دیگر ذرائع ابلاغ نے پیشگوئی کی ہے کہ لبرل پارٹی کینیڈا میں اگلی حکومت بنائے گی، ابتدائی نتائج کے مطابق لبرل پارٹی کو پارلیمنٹ کی 343 نشستوں میں سے کنزرویٹو پارٹی کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل ہونے کا امکان ہے، تاہم یہ واضح نہیں کہ انہیں سادہ اکثریت حاصل ہوئی یا نہیں۔
شروع میں لبرل پارٹی الیکشن ہارنے کے قریب تھی، لیکن جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کی معیشت پر تنقید کی اور کہا کہ کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنا دینا چاہیے، تو کینیڈا کے لوگ ناراض ہو گئے۔
اس ناراضی سے ملک میں قوم پرستی (اپنے وطن سے محبت) بڑھ گئی، جس نے لوگوں کو لبرل پارٹی کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔
یوں لبرل پارٹی نے اپنی پوزیشن بہتر بنائی اور مسلسل چوتھی بار حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
اپوزیشن کنزرویٹو پارٹی کے رہنما پیئر پوئیلیور چاہتے تھے کہ یہ الیکشن سابق وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو پر ایک ریفرنڈم ثابت ہو، کیونکہ ان کی مقبولیت اقتدار کے آخری برسوں میں مہنگائی اور رہائش کے بڑھتے اخراجات کی وجہ سے کم ہو گئی تھی۔
لیکن پھر ٹرمپ نے کینیڈا پر جوابی حملے شروع کر دیے، ٹروڈو نے استعفیٰ دے دیا اور بینکنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے مارک کارنی لبرل پارٹی کے سربراہ اور وزیرِاعظم بن گئے۔
اپوزیشن کنزرویٹو پارٹی کے رہنما پیئر پوئیلیور پر ٹرمپ کے خلاف سخت مؤقف نہ اپنانے پر تنقید کی جا رہی تھی۔ انہوں نے پولنگ بند ہونے سے چند گھنٹے پہلے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’صدر ٹرمپ، ہمارے الیکشن سے دور رہیں۔ کینیڈا کے مستقبل کا فیصلہ صرف کینیڈین عوام ووٹ کے ذریعے کریں گے۔ کینیڈا ہمیشہ باوقار، خودمختار اور آزاد رہے گا اور ہم کبھی بھی امریکہ کی 51ویں ریاست نہیں بنیں گے۔‘
جب تک ٹرمپ نے دوسری بار صدر بن کر کینیڈا کی معیشت اور خودمختاری کو دھمکیاں نہیں دی تھیں، لبرل پارٹی کو الیکشن ہارنے کا خطرہ تھا۔
لیکن ٹرمپ کے جارحانہ بیانات نے کینیڈین عوام کو مشتعل کر دیا، جس کے نتیجے میں کئی لوگوں نے امریکہ جانے کا ارادہ ترک کر دیا، امریکی مصنوعات خریدنے سے انکار کر دیا اور بہت سے افراد نے وقت سے پہلے ووٹ ڈال دیا۔ الیکشن کے دن ریکارڈ 73 لاکھ کینیڈینز نے ووٹ ڈالا۔
الیکشن جیتنے کے بعد مارک کارنی نے کہا کہ وہ کئی ماہ سے خبردار کر رہے ہیں کہ امریکہ ہماری زمین، ہمارے وسائل اور ہمارا ملک چاہتا ہے، صدر ٹرمپ ہمیں توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ امریکہ ہم پر قبضہ کر لے جو کہ کبھی نہیں ہوگا۔
’ پوئیلیور ’منی ٹرمپ‘ لگتے ہیں‘
پاکستان سے دس سال قبل کینیڈا آنے والی بہنوں نے کہا کہ لبرل جماعت کی حکومت کے تحت معیشت بہت خراب ہوگئی ہے اور روزگار کے مواقع کم ہو گئے ہیں۔
مہیرا شوئیب نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ پیئر پوئیلیور کینیڈا کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہیں۔ ’وہ کاروباری ذہن کے مالک ہیں، اور ہمیں اس وقت یہی ضرورت ہے‘۔
جب ٹرمپ الیکشن کا مرکزی موضوع بنے تو پوئیلیور کی امریکی صدر سے مشابہت نے انہیں نقصان پہنچایا۔
ٹورنٹو کے رہائشی ریڈ وارن نے لبرل پارٹی کو ووٹ دیا کیونکہ ان کے مطابق پوئیلیور ’منی ٹرمپ‘ لگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ ٹیرف نے انہیں پریشان کردیا ہے۔
کینیڈا کے مورخ رابرٹ بوٹھ ویل نے کہا کہ پوئیلیور میں بھی وہی غصہ اور شکایت کا جذبہ ہے جو ٹرمپ میں ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے ٹرمپ کھڑے ہو کر کہہ رہے ہوں، 'میں تمہارا انتقام ہوں‘۔
لبرلز کو چیلنجز
مارک کارنی اور لبرل پارٹی نے مسلسل چوتھی مدت کے لیے اقتدار میں آئے ہیں، لیکن ان کے سامنے بڑے چیلنجز ہیں۔
امریکہ کی جانب سے کینیڈا کی مصنوعات پر عائد کیے گئے بھاری ٹیرف کے علاوہ، کینیڈا کو ایک طویل عرصے سے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ اور چونکہ کینیڈا کی 75 فیصد سے زیادہ برآمدات امریکہ کو جاتی ہیں، ٹرمپ کی طرف سے ٹیرف کی دھمکی اور شمالی امریکی آٹومیکرز کو کینیڈا کی پیداوار جنوبی امریکہ منتقل کرنے کی خواہش کینیڈا کی معیشت کے لیے سنگین نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔