
اسرائیل کے قطر میں حملے پر دنیا بھر سے سخت ردعمل آ رہا ہے اور اسرائیل کو عالمی تنقید کا سامنا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیلی وزرا اور سفیر جارحانہ بیانات دے دہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ قطر میں حماس کی مذاکراتی ٹیم پر حملہ یہ دکھاتا ہے کہ ان کا ملک اپنے دشمنوں کو ہر جگہ نشانہ بنائے گا۔
ایکس پر اپنے بیان میں وزیرِ دفاع نے کہا کہ اسرائیل کی سیکیورٹی پالیسی بالکل واضح ہے۔ اسرائیل کے لمبے ہاتھ ہر جگہ اپنے دشمنوں کے خلاف حرکت میں آئیں گے۔ دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں ہمارے دشمن چھپ سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس نے بھی سات اکتوبر 2023 کے حملے میں حصہ لیا تھا اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اور جو بھی اسرائیل کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہوگا اسے نشانہ بنایا جائے گا۔
اسرائیل کے قطر میں حملے پر دنیا بھر سے سخت ردعمل آ رہا ہے اور اسرائیل کو عالمی تنقید کا سامنا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ، چائنہ، روس، آسٹریلیا، فرانس اور برطانیہ سمیت کئی ملکوں نے اسرائیل کے قطر پر حملے کی مخالفت اوراس پر تنقید کی ہے اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیلی وزرا اور سفیر جارحانہ بیانات دے دہے ہیں۔
’حماس کی لیڈرشپ اگر بچ گئی تو دوبارہ حملہ کر کے مار دیں گے‘
اسرائیل کے امریکہ میں سفیر یخیل لائتر نے کہا ہے کہ حماس کی لیڈرشپ ان کے نشانے پر ہے اور انہیں ختم کیا جائے گا۔
امریکی ٹی وی فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر وہ قطر میں کیے گئے حملے میں بچ گئے ہیں تو ہم انہیں دوبارہ حملہ کر کے مار دیں گے۔
قطر میں حملے پر اسرائیل پر دنیا بھر میں تنقید ہو رہی ہے۔ اس بارے میں اسرائیلی سفیر کا کہنا تھا کہ ابھی ہم پر تھوڑی تنقید ہو رہی ہے لیکن یہ وقت گزر جائے گا۔
’ہمیشہ امریکہ کے مفاد میں کام نہیں کرتے‘
اسرائیل کے اقوامِ متحدہ میں نمائندے ڈینی ڈینن نے کہا کہ اسرائیل ہمیشہ اپنے اتحادی امریکہ کے مقاصد پر نہیں چلتا۔ ہم ہمیشہ امریکہ کے مفاد کے لیے کام نہیں کرتے۔ ہم رابطے میں رہتے ہیں، وہ ہمیں بہت سپورٹ کرتے ہیں جس کی ہم قدر کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ہم اپنے فیصلے کرتے ہیں اور امریکہ کو بتا دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ حملہ قطر پر نہیں بلکہ حماس پر تھا اور یہ فیصلہ بالکل درست تھا۔
واضح رہے کہ امریکہ نے بھی اسرائیل کے قطر پر حملے پر تنقید کی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے سے ’بہت ناخوش‘ ہیں۔