غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو ایک مستقل امن عمل میں تبدیل کرنے کے لیے علاقائی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ 'ایک نیا مشرقِ وسطیٰ جنم لے رہا ہے۔' اور وعدہ کیا کہ وہ اس عمل کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ امن کے ارادے کا اعلامیہ، جس پر صدر اردوان نے بھی دستخط کیے، اس کا مقصد صرف غزہ کی جنگ ختم کرنا نہیں۔ بلکہ یہ فریقین کے درمیان خطے میں استحکام یقینی بنانے کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنے کے عزم کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ امن منصوبے کے نفاذ کے معاہدے سے علاقائی ممالک کو یہ موقع ملے گا کہ اگر اسرائیل امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوئی کوشش کرے تو وہ ٹرمپ سے مداخلت کی درخواست کر سکیں۔ سابق امریکی صدر بائیڈن نے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے سے گریز کیا اور اسے غیر مشروط حمایت فراہم کی۔ لیکن اس کے برعکس ٹرمپ نے قطر پر حملے کے بعد فوری ردِعمل دیا اور وہ خطے کے ممالک کے خدشات سننے میں زیادہ آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ 'نئے مشرقِ وسطیٰ کی پیدائش' سے ٹرمپ کا مطلب غالباً یہ ہے کہ وہ اپنے اسرائیل کے حامی مؤقف کو برقرار رکھتے ہوئے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
شرم الشیخ میں ہونے والی کانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ کیوں کہ اس کے ذریعے خطے کے ممالک کی ٹرمپ کے منصوبے کے پر رضامندی کو باضابطہ شکل دی گئی۔ اس سے قبل ترکیہ کی بھرپور سفارتی کوششوں کے باعث عرب اور اسلامی ممالک نے ایک مشترکہ مؤقف اختیار کیا تھا۔ لیکن امریکا کی حمایت یافتہ اسرائیل کی زبردست فوجی طاقت کے استعمال کو روکا نہیں جا سکا تھا۔ اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ عرب ممالک اسرائیل یا امریکا کے خلاف سخت ردعمل دے کر واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔
قطر میں حماس کے وفد پر اسرائیلی حملے کے بعد قطر کے ردعمل نے ٹرمپ کو کوئی اقدام کرنے پر مجبور کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ حملے پر اپنی ناراضی کا عوامی اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ نے نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا کہ وہ 'فتح' کا اعلان کریں اور ایک معاہدے پر دستخط کریں۔ اس کے بدلے میں ٹرمپ نے شرم الشیخ کانفرنس سے قبل اسرائیل کا دورہ کیا تاکہ نیتن یاہو کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کریں۔ اور ساتھ ہی خود کو مرکزی ثالث اور امن کے اسپانسر کے طور پر پیش کرتے ہوئے عرب ممالک کے ساتھ ایک امن عمل شروع کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
اگرچہ مصر میں دستخط ہونے والا امن اعلامیہ اسرائیل کو قانونی طور پر امن معاہدے پر عمل درآمد کرنے کا پابند نہیں کرتا، لیکن اگر اسرائیل دوبارہ جنگ کا راستہ اختیار کرتا ہے تو یہ ایک نفسیاتی رکاوٹ کے طور پر کام کرے گا۔ کیوں کہ ایسا کرنا 'ٹرمپ کے امن منصوبے' کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔ ٹرمپ کے پاس خطے کے ممالک خطے کے دیگر ملکوں اور بالخصوص قطر جیسے خلیجی ملکوں کی بات سننے کی مضبوط وجوہات ہیں جو بڑی سرمایہ کاری کی طاقت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ ان ممالک کے ساتھ امریکہ تعلقات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔ تاہم ان ممالک کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ورنہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری نسل کشی باقی فلسطین تک بھی پھیل سکتی ہے۔ اگر عرب ملک اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے امریکی تعلقات کو فلسطین کے مسئلے سے جوڑنے سے گریز کرتے رہے، تو دیرپا امن حاصل کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ لیکن اگر اعلامیے پر دستخط کرنے والے ممالک اس معاہدے کو اس صورت میں استعمال کریں کہ ٹرمپ اسرائیل پر اپنا دباؤ برقرار رکھیں، تو پائیدار امن کے امکانات میں اضافہ ہو گا۔
شرم الشیخ میں اپنی تقریر کے دوران ٹرمپ نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کو بڑی کامیابی قرار دینے میں ذرا دیر نہیں کی اور 'نئے مشرقِ وسطیٰ کے جنم' کی بات کی۔ یہ بات واضح ہے کہ اس وژن میں نہ تو اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی کوئی بات شامل ہے اور نہ ہی گزشتہ دو سالوں میں اسرائیل کی جانب سے کی گئی نسل کشی پر کسی احتساب کا ذکر ہے۔ ٹرمپ کے منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنے اور غزہ کی تعمیرِ نو کو ایک بین الاقوامی کمیشن کے تحت انجام دینے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ لیکن ان دونوں اہداف کے نفاذ میں سنگین رکاوٹیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس منصوبے میں ایسی کوئی واضح شق نہیں جو اسرائیل کو دوبارہ حملے شروع کرنے سے روکے۔ اس سب کے باوجود ٹرمپ خود کو امن کے داعی اور 'نئے مشرقِ وسطیٰ' کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ 'امن لانے والے رہنما' کے طور پر وہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی معمول پر واپسی کے ایجنڈے کو بھی آگے بڑھائیں گے۔ تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ٹرمپ کا وژن عرب۔اسرائیل امن کو محفوظ بنانا چاہتا ہے مگر ایک بار پھر فلسطین کے مسئلے کو پسِ پشت ڈال کر۔
حماس کے سات اکتوبر کے حملوں نے ایک بار پھر یہ دکھایا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو حل کیے بغیر خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اپنے پہلے دورِ صدارت میں ٹرمپ نے 'ابراہیمی معاہدوں' کو آگے بڑھایا اور یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ اپنی دوسری مدت میں انہوں نے ایک طرف اسرائیل کی حمایت جاری رکھی اور دوسری طرف ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے بھی کیے۔ اسرائیل میں اپنی تقریر کے دوران ٹرمپ نے ذاتی طور پر اسرائیلی لابی کی طاقت کو تسلیم کیا اور اشارہ دیا کہ ارب پتی ڈونر میرئم ایڈلسن، جو یروشلم کو دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے میں اثرورسوخ رکھتی ہیں، 'امریکہ سے زیادہ اسرائیل سے محبت کرتی ہیں۔' یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ٹرمپ ایران کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنگ کے امکان اور اسرائیل کے قطر پر حملے کے حوالے سے غیر مطمئن تھے۔ ان کے بیانات سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنے حمایتیوں میں بڑھتے ہوئے اسرائیل مخالف جذبات کے بارے میں حساس ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ مسئلہ فلسطین کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ خطے کے ممالک کا دباؤ اسرائیلی لابی کے اثر و رسوخ کو کسی حد تک متوازن کر سکتا ہے۔
شرم الشیخ میں ہونے والا امن اعلامیہ اس لیے اہم نہیں کہ یہ فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات پیش نہیں کرتا۔ بلکہ اس لیے ہے کہ یہ ٹرمپ کی سرپرستی میں سامنے آیا ہے۔ وہ واحد شخصیت ہیں جو اسرائیل پر حقیقی دباؤ ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس عمل سے نہ تو دو ریاستی حل کی امید کی جا سکتی ہے نہ ہی کسی نئے علاقائی سیکیورٹی ڈھانچے کی۔ لیکن اس کی اہمیت اس لیے ہے کہ یہ واشنگٹن کو اسرائیل کی نسل کشی روکنے اور غزہ کو ذرا سانس لینے کا موقع دینے میں مدد کر سکتا ہے۔ جب تک اسرائیل کا قبضہ برقرار ہے، نہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور نہ ہی ایک حقیقی 'نیا مشرقِ وسطیٰ' وجود میں آ سکتا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ کی شمولیت اس بات کی علامت ہے کہ خطے کے ممالک کو اب اس واحد فریق پر کچھ اثر و رسوخ حاصل ہو سکتا ہے جو اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر یہ ملک ایک متحد مؤقف اختیار کرنا سیکھ لیں تو شاید تب ہی نئے مشرقِ وسطیٰ کا جنم حقیقت بن سکے۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔