
پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق اس حملے کی منصوبہ بندی اور نگرانی افغانستان میں موجود دہشت گردوں نے کی تھی۔
پاک فوج کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ضلع سبی کے قریب جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے، جنہوں نے سینکڑوں مسافروں کو یرغمال بنا رکھا تھا۔
الگ الگ بیانات میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری اور وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے کامیاب آپریشن کی تکمیل اور تمام یرغمالیوں کی بازیابی کا اعلان کیا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ تمام باقی مسافروں کو بحفاظت بازیاب کرلیا ہے اور بولان کے علاقے میں مشکاف ٹنل کے قریب پھنسے ہوئے ٹرین کو دہشت گردوں سے کلیئر کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران تمام 33 حملہ آور ہلاک ہو گئے اور یرغمالیوں کو مرحلہ وار بحفاظت بازیاب کرا لیا گیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر کی گئی پوسٹ کے مطابق آپریشن سے پہلے دہشت گردوں نے 21 مسافروں کو ہلاک کیا۔

اگرچہ انہوں نے بتایا کہ ٹرین میں تقریباً 440 مسافر سوار تھے، لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کل کتنے یرغمالیوں کو بازیاب کرایا گیا۔
پاک فوج کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ آپریشن کے دوران چار سیکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔
پاک فوج نے الزام عائد کیا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق اس حملے کی منصوبہ بندی اور نگرانی افغانستان میں موجود دہشت گردوں نے کی تھی۔ حملے میں ملوث دہشت گرد مسلسل افغانستان میں موجود دہشت گردوں سے رابطے میں تھے۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے سربراہ نے بتایا کہ اس آپریشن میں فوج، فضائیہ، فرنٹیئر کور اور ایس ایس جی کے اہلکاروں نے حصہ لیا۔انہوں نے کہا کہ جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا، وہاں پہنچنا کافی مشکل تھا۔ ’دہشت گردوں نے یرغمالیوں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔‘
ایک مسلح گروہ ٹرین اور اس کے ارد گرد کے علاقے میں گشت کر رہا تھا اور اپنی حراست میں موجود بڑی تعداد میں مسافروں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔
ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ایس ایس جی کمانڈوز نے یرغمالیوں کی جان بچانے کے لیے احتیاط سے کارروائی کی اور فائرنگ کے تبادلے میں باقی دہشت گردوں کو ختم کرنے کے بعد تقریباً 68 یرغمالیوں کو آزاد کرایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ تقریباً تمام آپریشن مکمل ہو چکے ہیں اور فورسز اب کلیئرنس مرحلے میں ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل شریف نے کہا کہ ’یہ دہشت گرد آپریشن کے دوران سیٹلائٹ فون کے ذریعے افغانستان میں موجود اپنے سہولت کاروں اور ماسٹر مائنڈز سے رابطے میں تھے۔‘
ڈرون فوٹیج
آئی ایس پی آر نے اس مقام کی بلیک اینڈ وائٹ ڈرون فوٹیج بھی جاری کی، جہاں ٹرین پر حملہ کیا گیا تھا، اور وہ علاقہ دکھایا گیا جہاں آپریشن کیا گیا۔
فوٹیج میں ٹرین کے کنارے تین الگ الگ گروہوں میں لوگ بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔
تفصیلات بتاتے ہوئے آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کہا کہ یرغمالیوں کو ٹرین سے اتار کر الگ الگ گروپوں میں بٹھایا گیا تھا اور خودکش بمبار ان کی نگرانی کر رہے تھے، جس کی وجہ سے ریسکیو آپریشن کافی پیچیدہ ہو گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اسنائپرز نے بمباروں کو نشانہ بنایا، جس کے بعد یرغمالی بحفاظت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن کے دوران کوئی بھی یرغمالی زخمی نہیں ہوا۔
لیفٹیننٹ جنرل شریف نے بتایا کہ آپریشن کے دوران جو مسافر آس پاس کے علاقوں میں فرار ہو گئے تھے، انہیں بھی واپس بلا لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہایس او پیز کے مطابق بم ڈسپوزل اسکواڈ اور دیگر اہلکاروں کی مدد سے ٹرین کے ہر ڈبے اور اس کے ارد گرد کے علاقے کی کلیئرنس کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ گیارہ مارچ کو دہشت گرد تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ضلع سبی کے قریب جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے کہا تھا کہ اگر حکام جیل میں قید ان کے ساتھیوں کو رہا کرنے پر راضی ہو جائیں تو وہ مسافروں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہے۔
یہ ٹرین بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے خیبر پختونخوا کے شہر پشاور جا رہی تھی جب اسے نشانہ بنایا گیا۔ ٹرین میں 400 سے زائد مسافر سوار تھے اور اسے سبی شہر کے قریب، کوئٹہ سے تقریباً 160 کلومیٹر (100 میل) کے فاصلے پر، سرنگوں سے گزرتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔
بلوچستان دہائیوں سے سیکیورٹی کی صورتحال کے مسائل سے دوچار ہے۔ اس خطے میں کئی مسلح گروہ سرگرم ہیں، جن میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) بھی شامل ہے۔ 2006 سے اس گروہ پر پاکستان اور امریکہ دونوں نے پابندی عائد کر رکھی ہے، اور دونوں ممالک اسے ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: