بلوچستان: جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملہ کیسے ہوا؟

12:4811/03/2025, منگل
جنرل12/03/2025, بدھ
ویب ڈیسک
AFP
ٹرین کوئٹہ سے پشاور جارہی تھی
ٹرین کوئٹہ سے پشاور جارہی تھی

بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع سبی میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے 20 گھنٹے بعد بھی پاک فوج کا آپریشن جاری ہے، عسکری ذرائع نے 155 مسافروں کو بازیاب کروانے اور 27 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ ٹرین صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور جا رہی تھی۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

  • ہم اب تک کیا جانتے ہیں:
  • سیکورٹی اہلکاروں سمیت تقریباً 450 افراد کو لے جانے والی ٹرین کو ہائی جیک کر لیا گیا۔ بی ایل اے نے ذمہ داری قبول کر لی
  • سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، 27 دہشت گرد ہلاک؛ ہلاک ہونے والوں میں 10 اہلکار شامل ہیں۔
  • 37 زخمیوں سمیت 155 مسافروں کو بچا لیا گیا
  • مسافروں کے اہل خانہ کے لیے ہیلپ ڈیسک اور ایمرجنسی سیل قائم

حملہ آوروں نے جعفر ایکسپریس کو اُس وقت ہائی جیک کیا جب ٹرین سبی شہر کے قریب سرنگ سے گزر رہی تھی۔

سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا فوجی آپریشن جاری ہے، جبکہ حکام نے تصدیق کی ہے کہ کچھ مسافر محفوظ طریقے سے حملے کی جگہ کے قریب ایک اسٹیشن تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

کوئٹہ میں پاکستان ریلوے کے اہلکار رانا فاروق کے مطابق خواتین، بچے اور بزرگ سمیت تقریباً 70 مسافر پانیر ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے، جو حملے کی جگہ سے تقریباً 6 کلومیٹر (4 میل) دور ہے۔

جب ٹرین پر حملہ کیا گیا تو وہ بولان پاس کے علاقے سے گزر رہی تھی، جو ایک دشوار گزار اور پہاڑی علاقہ ہے۔


میپ سورس: الجزیرہ

جعفر ایکسپریس میں کیا ہوا تھا؟

ٹرین میں 400 سے زائد مسافر سوار تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، جبکہ درجنوں سیکیورٹی اہلکار اور ان کے اہل خانہ بھی موجود تھے۔

یہ ٹرین منگل کی صبح 9 بجے کوئٹہ سے روانہ ہوئی اور تقریباً 1600 کلومیٹر کا سفر طے کر کے پنجاب سے گزرتی ہوئی پشاور پہنچنے والی تھی۔ اس سفر میں تقریباً 30 گھنٹے لگتے ہیں اور راستے میں تقریباً 30 اسٹیشنوں پر رکنے کا شیڈول ہوتا ہے۔

ریلوے حکام کے مطابق حملہ دوپہر 1 بجے کے قریب اس وقت ہوا جب ٹرین بولان پاس سے گزر رہی تھی۔ یہ علاقہ کئی سرنگوں پر مشتمل ہے، جو برطانوی نوآبادیاتی دور میں تعمیر کی گئی تھیں۔


کس نے حملے کی ذمہ داری قبول کی، اور حکومت کا کیا ردعمل ہے؟

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، جو گزشتہ کئی سالوں سے بلوچستان میں متعدد حملے کر چکی ہے، نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

بی ایل اے نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے کم از کم چھ فوجی اہلکاروں کو ہلاک کیا اور ریلوے ٹریک کو تباہ کر دیا ہے، جس کے بعد ٹرینکو ہائی جیک کرلیا گیا تھا۔ تنظیم نے خبردار کیا کہ اگر اس حملے کے جواب میں کوئی فوجی آپریشن کیا گیا تو اس کے ’سنگین نتائج‘ ہوں گے۔ حملہ آوروں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ٹرین کے مسافر اب ان کے یرغمالی ہیں، حالانکہ درجنوں مسافر بعد میں پانیر ریلوے اسٹیشن پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

ابھی تک پاکستانی فوج نے ان دعوؤں پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا اور نہ ہی ینی شفق کی جانب سے کیے گئے سوالات کا جواب دیا ہے۔

صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق حکام نے سبی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔

سرکاری حکام نے حملے کی سخت مذمت کی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا بھی کی۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’جو درندے معصوم مسافروں پر فائرنگ کرتے ہیں، وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں‘۔



کتنے لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے؟

کوئٹہ اور سبی کے ہسپتالوں میں ہائی الرٹ نافذ کر دیا گیا ہے، لیکن منگل کی رات دیر تک وہاں کوئی زخمی مسافر نہیں لایا گیا تھا۔

ریلوے حکام کے مطابق دور دراز اور دشوار گزار علاقے میں موبائل سروس نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی وجہ سے بروقت معلومات حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ آور کچھ خواتین اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ آ رہی ہے۔

بی ایل اے کے حملے کے بعد بچ جانے والے مسافر کوئٹہ ریلوے اسٹیشن میں موجود ہیں

بلوچستان میں حملوں میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، لیکن ترقی کے لحاظ سے سب سے پیچھے ہے۔ یہاں کی آبادی تقریباً 1.5 کروڑ ہے۔

یہ صوبہ تانبے، گیس اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود طویل عرصے سے مقامی آبادی اور حکومت کے درمیان تنازعات کا مرکز رہا ہے۔

بلوچ علیحدگی پسند، جو پاکستان سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں، نے ریاست پر الزام لگایا ہے کہ وفاقی حکومت اور سیکیورٹی ادارے بلوچ لوگوں کو اغوا اور ظلم کا نشانہ بنا رہی ہے اور وہ اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)، جو 62 ارب ڈالر کا ایک بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے اور ایک دہائی قبل شروع کیا گیا تھا، نے اس تنازع کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

بی ایل اے نے چینی پروجیکٹس پر بھی کئی حملے کیے ہیں، جن میں سی پیک کا سب سے اہم منصوبہ گوادر پورٹ بھی شامل ہے۔ ان حملوں میں کئی چینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں بلوچستان میں تشدد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ قلات شہر میں بی ایل اے کے ایک حملے میں کم از کم 18 فوجی مارے گئے تھے۔ اس سے قبل مارچ میں قلات ہی میں ایک خاتون خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا، جس میں ایک قانون نافذ کرنے والا اہلکار ہلاک ہو گیا تھا۔

جعفر ایکسپریس بھی کئی بار حملوں کا نشانہ بنی ہے۔ گزشتہ سال بی ایل اے کے حملہ آوروں نے ٹریک کا ایک حصہ تباہ کر دیا تھا، جس کے باعث ٹرین سروس دو ماہ تک معطل رہی۔

نومبر میں کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر ایک خودکش حملہ اس وقت کیا گیا جب جعفر ایکسپریس روانگی کے لیے تیار تھی، اس حملے میں کم از کم 30 افراد، جن میں سیکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے، ہلاک ہو گئے تھے۔

بی ایل اے کے حملے کے بعد بچ جانے والے مسافر کوئٹہ ریلوے اسٹیشن میں موجود ہیں


دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی جانب سے جنوری میں جاری کردہ سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ یہ 2014 یا اس سے پہلے کے حالات جیسی ہو گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ 2014 کے برعکس اب دہشت گرد پاکستان کے اندر مخصوص علاقوں پر کنٹرول نہیں رکھتے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ تاہم، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں اب بھی بدامنی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ 2024 میں ریکارڈ کیے گئے 95 فیصد سے زائد دہشت گرد حملے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق کالعدم بلوچ عسکریت پسند گروہوں، خاص طور پر بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے حملوں میں حیران کن طور پر 119 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جن کی تعداد 171 تک جا پہنچی۔



بی ایل اے نے اپنی صلاحیتوں میں کیسے اضافہ کیا؟

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بی ایل اے کی بڑھتی ہوئی طاقت حکومت کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے، جو اس گروہ کا مؤثر طور پر مقابلہ کرنے میں ناکام رہی ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے پرانی حکمت عملیاں ہی اپنا رہی ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں مقیم بلوچستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ایکسپرٹ ملک سراج اکبر کے مطابق بی ایل اے نے اپنے حملوں کے انداز کو بدلا ہے۔ پہلے یہ گروپ مخصوص شخصیات کو نشانہ بنانے یا پائپ لائنوں کو نقصان پہنچانے جیسے چھوٹے حملے کرتا تھا، لیکن اب یہ بڑے پیمانے پر کارروائیاں کر رہا ہے۔

انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’یہ گروپ اب بڑے حملے کر رہا ہے، جیسے حالیہ مسافر ٹرین پر حملہ ہوا۔ یہ تبدیلی نہ صرف ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس اعتماد کو بھی کہ حکومت کے پاس انہیں روکنے کی مؤثر صلاحیت نہیں ہے، نہ ہی وہ ان کے بڑے حملوں کے بعد ان کے خلاف فوری اور کامیاب کارروائی کر سکتی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار اور بلوچستان کے امور کےایکسپرٹ رفیع اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ بی ایل اے نے اپنی قیادت کو مضبوط کیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے جنگجو (فائٹرز) براہِ راست اور آزادانہ طور پر حملے کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔

اس کے علاوہ جدید ہتھیاروں تک رسائی، جو امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد وہاں چھوڑ دیے گئے تھے، نے اس گروپ کی جنگی طاقت میں اضافہ کر دیا ہے، جس سے ان کے حملے مزید خطرناک ہو گئے ہیں۔


کیا حکومت بی ایل اے کے دوبارہ ابھرنے کو روک سکتی ہے؟

یونیورسٹی آف کیمبرج میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے رفیع اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال صرف خفیہ معلومات (انٹیلی جنس) کی ناکامی کی وجہ سے نہیں، بلکہ ریاست اور بلوچ عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری کا نتیجہ بھی ہے۔

ان کے مطابق ’گزشتہ دہائی کے دوران بلوچستان ایک ایسی تجربہ گاہ بن گیا ہے جہاں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نگرانی میں سیاسی انجینئرنگ کی جا رہی ہے۔ 10 سالوں میں چھ مختلف وزرائے اعلیٰ تبدیل کیے گئے، جس کی وجہ سے وہاں ایک مستحکم جمہوری حکومت نہیں بنی، جس سے عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سیاسی عدم استحکام نے جمہوری عمل کو کمزور کر دیا ہے اور پارلیمانی سیاست کو ایک مؤثر سیاسی جدوجہد کے طریقے کے طور پر غیر مؤثر بنا دیا ہے۔

ان کے مطابق ریاست اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچ عسکریت پسندوں کو ہوا ہے، جو اب نوجوانوں کو خودکش حملوں کے تیار کررہی ہیں۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ بلوچستان میں سب کچھ ٹھیک ہے، حالانکہ حقیقت میں وہاں شدید بحران ہے اور ریاست کا کنٹرول کمزور ہو چکا ہے۔


#بلوچستان
#پاکستان
#دہشت گردی
#بی ایل اے