
پاکستانی حکام نے صوبہ خیبرپخوتنخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں تین دن کے لیے دہشت گرد کے خلاف آپریشن شروع کر دیا ہے۔
منگل کو ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کردہ سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق تحصیل لوئی ماموند کے 16 گاوٴں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
ان علاقوں میں سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جس کے تحت اہم شاہراہوں یا رہائشی علاقوں میں کسی بھی شخص کو پیدل چلنے یا گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
جن گاوٴں میں کرفیو نافذ ہے ان میں بدیسیہ، ترخو، اریب، گٹ، اگرا، خورچئی، دواکئی، کلان، لغڑئی، کٹ کوٹ، گلی، نختار، زرئی، ڈمبرئی، امانتہ اور زگئی شامل ہیں۔
یہ کرفیو 31 جولائی تک نافذ رہے گا، جب تک کہ حکام اسے ختم یا مزید نہ بڑھا دیں۔
باجوڑ کے ڈپٹی کمشنر شاہد علی خان نے کہا کہ یہ قدم احتیاط کے طور پر اٹھایا گیا ہے تاکہ سیکیورٹی آپریشن کے دوران عوام کو محفوظ رکھا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ پابندیاں ممکنہ بدامنی سے بچاؤ اور سیکیورٹی اقدامات کے مؤثر نفاذ کے لیے ضروری ہیں۔‘
شاہد علی خان نے مزید بتایا کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے ایک ایمرجنسی کنٹرول روم 24 گھنٹے کے لیے فعال کر دیا گیا ہے اور عوام سے کسی بھی ہنگامی صورتحال کی اطلاع کے لیے رابطہ نمبر بھی شیئر کیے گئے ہیں۔
باجوڑ- طالبان کا گڑھ
باجوڑ، جو افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع ہے، دہشت گرد گروہوں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع نے ’نکتہ‘ نامی ڈیجیٹل چینل کو بتایا کہ ان دونوں گروہوں نے افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اس علاقے میں اپنے چھپے ہوئے کارندوں کو دوبارہ سرگرم کر دیا ہے۔
حالیہ مہینوں میں باجوڑ میں شدت پسندانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے، صرف گزشتہ دو مہینوں میں پانچ بڑے حملے رپورٹ ہوئے ہیں۔
سرکاری شخصیات کے گھروں کو بار بار نشانہ بنایا گیا ہے، جن میں رکن صوبائی اسمبلی حامدالرحمٰن اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی مبارک زیب شامل ہیں۔ دونوں حملوں میں محفوظ رہے۔
اس مہینے کے شروع میں ایک سڑک کنارے نصب بم دھماکے میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے، جن میں ایک سرکاری افسر بھی شامل تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے ایک مقامی رہنما کو بھی گولی مار کر قتل کیا گیا۔
’ہر بار آپریشن کے بعد کہا جاتا ہے کہ علاقہ محفوظ ہے لیکن پھر دوبارہ شروع کردیا جاتا ہے‘
باجوڑ میں حالیہ پرتشدد واقعات کے خلاف عوام نے اس مہینے کے شروع میں ایک امن مارچ کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ شدت پسندی اور ریاستی کارروائیاں بند کی جائیں کیونکہ ان سے مقامی لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
مقامی لوگ کسی بھی نئے فوجی آپریشنز کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے صرف لوگ بے گھر ہوتے ہیں۔ ان کی اپیل ہے کہ صرف خفیہ معلومات کی بنیاد پر مخصوص جگہوں پر کارروائی کی جائے۔
باجوڑ سے منتخب نمائندے نثار باز نے کہا کہ ’20 سے زیادہ فوجی آپریشن ہو چکے ہیں، مگر کیا حاصل ہوا؟ ہر بار کہا جاتا ہے علاقہ محفوظ ہو گیا، لوگ واپس آجائیں اور پھر سب کچھ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔‘
باجوڑ سے ایک اور رکن اسمبلی اجمل خان نے کہا کہ ’ہمارے لوگوں نے پہلے ہی بہت قربانیاں دے دی ہیں، اب ہم صرف امن چاہتے ہیں۔‘