
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ وہ اگلے مہینے میں سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اپنا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کریں گے، جہاں وہ سعودی عرب امریکی معیشت میں ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کریں گے، جس میں ملٹری ساز و سامان کی خریداری بھی شامل ہے۔
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اگلے ڈیڑھ ماہ میں سعودی عرب کا دورہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2017 میں اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران ان کا پہلا غیر ملکی دورہ ریاض تھا، جہاں انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ 350 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔
ٹرمپ نے مذاقاً کہا کہ ’اب وہ (سعودی عرب) بہت زیادہ امیر ہوچکے ہیں اور ہم سب بڑے ہوگئے ہیں‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سعودی حکومت ان کی درخواست پر امریکی معیشت میں 1 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے، جس میں امریکی فوجی ساز و سامان کی خریداری بھی شامل ہوگی۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’سعودی عرب راضی ہے، اس لیے میں وہاں جارہا ہے، میرے ان سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور وہ ہمارے ساتھ اچھا رویہ رکھتے ہیں‘۔
سعودی عرب حالیہ دنوں میں امریکہ کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ٹرمپ کے خصوصی مشرق وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وٹکوف کے مطابق سعودی عرب اگلے ہفتے ایک اہم امریکہ-یوکرین اجلاس کی میزبانی کرے گا، جہاں یوکرین جنگ میں سیز فائر سے متعلق بات چیت ہوگی۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’یوکرین معاہدہ کرنا چاہتا ہے، کیونکہ میرے خیال میں ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ امریکہ میں موجود 2 لاکھ سے زائد یوکرینی شہریوں کی عارضی قانونی حیثیت ختم کرنے جا رہے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ وہ ’بہت جلد اس پر فیصلہ کریں گے۔‘
یوکرین مذاکرات کے لیے سعودی عرب کا انتخاب: ٹرمپ کی ترجیح کیوں؟
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یوکرین پر اہم مذاکرات کے لیے سعودی عرب کا انتخاب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب نے سفارتی طور پر کس حد تک ترقی کی ہے۔ یہ وہی ملک ہے جو 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنا تھا اور تنہائی کا شکار ہو گیا تھا۔
لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے کا دباؤ کم ہو گیا ہے، حالانکہ سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر بعض عالمی فورمز پر اب بھی سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔

سعودی عرب کا عالمی کردار اور امریکہ سے بدلتے تعلقات
بی بی سی یوکے کے مطابق سعودی عرب نے انٹرٹینمنٹ اور کھیلوں میں بھاری سرمایہ کاری کرکے خود کو عالمی سطح پر ایک اہم طاقت کے طور پر منوانے کی کوشش کی ہے۔
سفارتی سطح پر بھی سعودی قیادت نے اپنے کردار کو بڑھایا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے دوران سعودی عرب نے امریکہ پر انحصار کم کرتے ہوئے روس اور چائنہ جیسے امریکی حریفوں کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھایا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں ممکنہ واپسی سعودی عرب کے لیے خوش آئند ہوگی، کیونکہ ان کی خارجہ پالیسی لین دین اور معاہدوں پر مبنی ہے جو موجودہ سعودی قیادت کے لیے زیادہ خوش آئند ہے۔

اسرائیل-سعودی امن معاہدہ اور غزہ جنگ کی پیچیدگیاں
ٹرمپ اپنی سفارتی کامیابیوں میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کو شامل کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ان کے پہلے دور میں شروع کیے گئے ’ابراہام معاہدے‘ مکمل ہو سکیں۔ لیکن غزہ جنگ اس معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
ٹرمپ کی غزہ سے فلسطینیوں کو نکال کر اسے ایک سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کی تجویز کو سعودی عرب نے فوراً مسترد کر دیا ہے۔ اس کے بجائے سعودی عرب دیگر عرب ممالک کے ساتھ مل کر ایک متبادل منصوبہ پیش کیا ہے۔ جس کے تحت فلسطینی غزہ میں ہی رہیں گے، غزہ کی تعمیر نو پانچ سال میں مکمل ہوگی اور دو ریاستی حل کی کوشش کی جائے گی۔
جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی موجودہ پالیسی غزہ اور مغربی کنارے کے حوالے سے سعودی منصوبے سے بالکل مختلف ہے۔
سعودی-امریکہ تعلقات کا مستقبل
یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یہ اختلافات کیسے ختم ہوتے ہیں، کیونکہ یہی سعودی عرب اور امریکہ کے مستقبل کے تعلقات کی سمت طے کریں گے۔
مگر ایک بات واضح ہے: سعودی عرب عالمی سفارتکاری میں اپنا اہم کردار بنانے کے ارادے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔