یوکرین نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں 30 دن کی جنگ بندی قبول کر لی: اس کا روس-یوکرین جنگ پر کیا اثر پڑے گا؟

06:4213/03/2025, Perşembe
جنرل13/03/2025, Perşembe
ویب ڈیسک
ابھی تک روس نے اس جنگ بندی معاہدے پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
تصویر : اے ایف پی / فائل
ابھی تک روس نے اس جنگ بندی معاہدے پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔

یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا ہے کہ یوکرین نے سعودی عرب میں امریکہ کے ساتھ اہم امن مذاکرات کے بعد روس کے ساتھ 30 دن کی جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔

اس کے جواب میں واشنگٹن نے یوکرین کو فوجی امداد اور انٹیلی جنس معلومات کی فراہمی دوبارہ شروع کر دی ہے۔

سعودی عرب کی ثالثی میں امریکی اور یوکرینی حکام کے درمیان آٹھ گھنٹے تک بات چیت جاری رہی جس کے بعد امن معاہدہ کی شرائط پر دستخط ہوگئے جو اب روس کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ اب گیند ماسکو کے کورٹ میں ہے۔


جنگ بندی معاہدہ کیا ہے؟

یہ معاہدہ سعودی عرب میں ہونے والی ایک ملاقات کے بعد طے پایا۔ یوکرین کی نمائندگی صدر زیلنسکی کے دفتر کے سربراہ آندری یرماک، وزیر خارجہ آندریئی سبیگا، وزیر دفاع رستم عمرُوف، اور کرنل پاولو پالِسا نے کی۔

امریکہ کی جانب سے وزیر خارجہ مارکو روبیو اور قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز مذاکرات میں شریک تھے۔

منگل کے روز امریکہ اور یوکرین نے مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔ اس بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک نے فوری طور پر 30 روزہ جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔

یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے منگل کو ایکس پر ایک پوسٹ میں وضاحت کی کہ یہ جنگ بندی نہ صرف بحیرہ اسود میں بلکہ زمینی، فضائی سمیت تمام محاذوں پر لاگو ہوگا، یعنی روس کی جانب سے کسی بھی قسم کے میزائل حملے، ڈرون حملے، اور بمباری نہیں کیے جائیں گے۔

جنگ بندی معاہدے پر اس وقت تک عمل نہیں ہوگا جب تک کہ روس اس پر رضامند نہ ہو۔ اس معاہدے کی غیر معمولی نوعیت اس لیے بھی ہے کہ عام طور پر جنگ بندی کے معاہدے دو فریقوں (یعنی لڑنے والے ممالک یا گروپوں) کے درمیان ہوتے ہیں، لیکن یہاں جنگ بندی کا اعلان یوکرین اور امریکہ نے کیا ہے۔

امریکہ نے ایک ثالث کے طور پر یوکرین کے ساتھ مل کر جنگ بندی کا فریم ورک تیار کیا ہے اور اب وہ روس کو اس میں شامل کرنے کی کوشش کرے گا۔ مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکہ ’روس کو یہ پیغام دے گا کہ جنگ بندی میں روسی شمولیت امن کے حصول کے لیے ضروری ہے‘۔


کیا روس جنگ بندی کو قبول کرے گا؟

ابھی تک روس نے اس جنگ بندی معاہدے پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’یہ حیران کن اور غیر متوقع ہوگا اگر روس بغیر کسی اضافی مطالبے کے اس معاہدے کو قبول کر لے۔‘

ماہرین نے یہ بھی کہا کہ ’روس کے پاس اس وقت ہر وجہ موجود ہے کہ وہ جنگ بندی کے بدلے مزید شرائط رکھے تاکہ اسے اپنے فائدے میں استعمال کر سکے‘۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن جنگ بندی کے بدلے اضافی مطالبات کر سکتے ہیں، جن میں پابندیوں میں نرمی یا یوکرین کو دی گئی مستقل سیکیورٹی ضمانتوں پر پابندیاں شامل ہو سکتی ہیں۔

2022 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے امریکہ اور اس کے اتحادی روس پر کم از کم 21 ہزار 692 پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔ ان میں روسی شہریوں، میڈیا اداروں، فوجی اداروں، ایئرلائنز، بحری جہاز اور ٹیلی کمیونیکیشن سمیت کئی شعبے شامل ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 7 مارچ کو کہا تھا کہ وہ اس وقت تک روس پر مزید پابندیاں اور محصولات لگانے پر غور کر رہے ہیں جب تک کہ یوکرین کے ساتھ امن معاہدہ طے نہ پا جائے۔



#امریکا
#روس یوکرین جنگ
#یورپ