خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں ’فوجی آپریشن سربکف‘ کے خلاف عوام کا احتجاج

15:0330/07/2025, بدھ
جنرل30/07/2025, بدھ
ویب ڈیسک
سیکیورٹی فورسز نے ہیلی کاپٹروں اور توپ خانے کی مدد سے منگل کے روز لوئی ماموند تحصیل میں دہشت گردوں کے خلاف ’آپریشن سربکف‘ کا آغاز کیا
تصویر : فیس بک / انور زیب
سیکیورٹی فورسز نے ہیلی کاپٹروں اور توپ خانے کی مدد سے منگل کے روز لوئی ماموند تحصیل میں دہشت گردوں کے خلاف ’آپریشن سربکف‘ کا آغاز کیا

صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں مقامی لوگ فوجی آپریشن کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جبکہ صوبائی حکومت نے بھی اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اعلان کیا ہے کہ ضلع کے 16 علاقوں میں لگایا گیا تین دن کا کرفیو ختم کر دیا جائے گا۔

سیکیورٹی فورسز نے ہیلی کاپٹروں اور توپ خانے کی مدد سے منگل کے روز لوئی ماموند تحصیل میں دہشت گردوں کے خلاف ’آپریشن سربکف‘ کا آغاز کیا۔ باجوڑ اور خیبر پختونخوا کے دیگر کچھ اضلاع میں قبائلی عمائدین طویل عرصے سے کسی بھی فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے آ رہے ہیں، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ لوگ اپنے گھروں سے محروم ہوجائیں گے۔

ذرائع کے مطابق لوئی ماموند کے مختلف علاقوں میں کم از کم چار دہشت گرد ہلاک، بارہ کے قریب زخمی اور تقریباً دس کو زندہ گرفتار کیا گیا۔ تاہم سیکیورٹی فورسز نے اب تک اس کی تصدیق نہیں کی۔ مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان جھڑپوں کے دوران دو عام شہری بھی جان کی بازی ہار گئے، جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے، جب کہ دو بچوں اور ایک خاتون سمیت آٹھ افراد زخمی ہوئے۔


یہ بھی پڑھیں:

’ہم کسی بھی فوجی آپریشن کے حق میں نہیں جب تک صوبائی حکومت کو اعتماد میں نہ لیا جائے‘

پشاور میں گزشتہ شب دیر گئے تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ’ہم کسی بھی فوجی آپریشن کے حق میں نہیں جب تک صوبائی حکومت کو اعتماد میں نہ لیا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس سے ’ہماری فوج اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ کمزور ہو رہا ہے۔‘

اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ باجوڑ کے مختلف علاقوں میں حالیہ کرفیو کو آج ہی ختم کر دیا جائے گا، تاہم اس حوالے سے سرکاری اعلان تاحال سامنے نہیں آیا۔

یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ فوجی آپریشن سے متعلق آئندہ کا لائحہ عمل خیبر پختونخوا اسمبلی میں بحث کے بعد طے کیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ گنڈا پور نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’ہم اپنے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم اپنی عوام کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔ ہم ایسے فیصلوں کے تحت اپنی سرزمین کو برباد نہیں کر سکتے جو ہم پر مشاورت کے بغیر مسلط کیے جائیں۔‘

اجلاس میں سیکیورٹی صورتحال اور عوامی خدشات کے حوالے سے آئندہ اقدامات سے متعلق کئی اہم فیصلے کیے گئے۔

وزیراعلیٰ نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی کہ وہ خیبر پختونخوا ہوم ڈیپارٹمنٹ کی اجازت کے بغیر کسی بھی صورت میں کرفیو نافذ نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دفعہ 144 کے نفاذ کے اختیارات بھی ہوم ڈیپارٹمنٹ کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔

وزیراعلیٰ گنڈا پور نے مزید کہا کہ وہ چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کریں گے تاکہ صوبے کی امن و امان کی صورتحال پر بات ہو سکے۔

آئندہ ہفتے منعقد کی جانے والی جرگوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اگلے 10 دنوں میں دو اضلاع پر مشتمل جرگے منعقد کیے جائیں گے، جس کے بعد دہشتگردی سے متاثرہ تمام علاقوں کے تمام فریقین پر مشتمل ایک بڑا جرگہ بلایا جائے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان جرگوں میں کیے گئے فیصلوں کی روشنی میں پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے گی۔


باجوڑ میں مظاہرے


ادھر پی ٹی آئی کے رکنِ صوبائی اسمبلی انور زیب خان نے کہا ہے کہ باجوڑ کے عمری چوک میں مظاہرین جمع ہو رہے ہیں تاکہ بغیر اعلان کیے گئے آپریشن کے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔

ان کی جانب سے شیئر کی گئی تصاویر میں سینکڑوں افراد کو سڑک پر جمع دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ مظاہرہ وار ماموند تحصیل کے رہائشیوں کے گزشتہ روز کے احتجاج کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں عوام نے مطالبہ کیا تھا کہ سیکیورٹی آپریشن کے دوران عام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے بھی آپریشن کے آغاز پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے فوری طور پر کارروائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔



عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے بھی فوجی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ پارٹی کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی خان اور صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے اس کارروائی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت کسی بھی فوجی آپریشن کے لیے صوبائی حکومت کی منظوری ضروری ہے۔






#باجوڑ
#خیبرپختونخوا
#پاک فوج
#پاکستان