
اسرائیلی وزیراعظم نے معاہدے پر دستخط کر دیے، مقبوضہ مغربی کنارے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے منصوبے کو آگے بڑھایا جائے گا۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے باضابطہ طور پر مقبوضہ ویسٹ بینک میں بستیوں کی توسیع کے منصوبے کی منظوری دے دی، جو کسی بھی مستقبل کی فلسطینی ریاست کو تقریباً ناممکن بنا دے گا۔
نیتن یاہو نے جمعرات کو ایک معاہدے پر دستخط کیے تاکہ اس منصوبے کو آگے بڑھایا جا سکے، جو مغربی کنارے کو دو حصوں میں تقسیم کر دے گا۔
نیتن یاہو نے یروشلم کے مشرق میں واقع ایک بستی مجلسِ مَعَالے عدومیم میں کہا ’ہم اپنے وعدے کو پورا کریں گے کہ یہاں کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی۔ یہ جگہ ہماری ہے، ہم اس شہر کی آبادی دوگنی کرنے جا رہے ہیں۔‘
یہ بستی یروشلم کے مشرق میں 12 مربع کلومیٹر رقبے پر واقع ہے اور اسے ’ایسٹ 1‘ یا ’ای1‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ترقیاتی منصوبے میں اسرائیلی آبادکاروں کے لیے 3,400 نئے گھروں کی تعمیر شامل ہے، جس سے مقبوضہ مشرقی یروشلم کو مغربی کنارے کے بڑے حصے سے کاٹ دیا جائے گا جبکہ اس علاقے میں موجود ہزاروں اسرائیلی بستیوں کو آپس میں جوڑ دیا جائے گا۔
مشرقی یروشلم فلسطینیوں کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ وہ اسے مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔
1967 سے مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم تمام اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھی جاتی ہیں، چاہے انہیں اسرائیل کی منصوبہ بندی کی اجازت حاصل ہو یا نہ ہو۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدارتی ترجمان نبیل ابو رضینہ نے اسرائیلی وزیرِ اعظم کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی فلسطینی ریاست، جس کا داالحکومت مشرقی یروشلم ہو، اس کے قیام سے ہی اس خطے میں امن آ سکتا ہے۔ انہوں نے دو ریاستی حل کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ترجمان نے اسرائیلی آبادکاریوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ نیتن یاہو پورے خطے کوکھائی میں دھکیل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے رکن ملکوں میں سے 149 ملک فلسطین کو ریاست تسلیم کر چکے ہیں اور جن ملکوں نے اب تک نہیں کیا ہم انہیں بھی کہتے ہیں کہ وہ فلسطین کو ریاست تسلیم کریں۔