’ای ون‘ منصوبے کی حتمی منظوری: فلسطینی ریاست کے تصور کو مٹانے والا یہ منصوبہ کیا ہے اور دنیا اس پر کیا کہہ رہی ہے؟

13:2921/08/2025, الخميس
جنرل21/08/2025, الخميس
ویب ڈیسک
متنازع ای ون پروجیکٹ
متنازع ای ون پروجیکٹ

اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزائل سموترچ نے بدھ کو اعلان کیا کہ ’ای ون‘ منصوبے کو حتمی منظوری مل گئی ہے۔ ’اس منصوبے کے ساتھ ہم وہ وعدہ پورا کر رہے ہیں جو برسوں سے کیا جا رہا تھا۔ فلسطینی ریاست کو صرف نعروں سے نہیں، بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے نقشے سے مٹایا جا رہا ہے۔‘

اسرائیل نے مغربی کنارے میں آبادکاری کے ایک متنازع منصوبے ’ای ون‘ کی حتمی منظوری دے دی ہے جس سے مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات ختم ہو سکتے ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزائل سموترچ نے بدھ کو اعلان کیا کہ ’ای ون‘ منصوبے کو حتمی منظوری مل گئی ہے۔ ’اس منصوبے کے ساتھ ہم آخرکار وہ وعدہ پورا کر رہے ہیں جو برسوں سے کیا جا رہا تھا۔ فلسطینی ریاست کو صرف نعروں سے نہیں، بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے نقشے سے مٹایا جا رہا ہے۔‘

ای ون منصوبہ کیا ہے؟

مغربی کنارے میں اسرائیلی بستی معالیہ ادومیم اور مشرقی یروشلم کے درمیان ایک 12 اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ ہے جسے ’ای ون‘ کہا جاتا ہے۔ اسرائیل کافی عرصے سے اس علاقے پر اپنی آبادی بسانے کا خواہش مند رہا ہے۔ لیکن عالمی مخالفت کی وجہ سے وہ کئی برسوں سے اس پر عمل درآمد نہیں کر پا رہا تھا۔

ای ون منصوبے کو پہلے 2012 اور پھر 2020 میں امریکہ اور یورپی ممالک کی مخالفت کی وجہ سے روک لیا گیا تھا۔

مگر گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر سموترچ نے اس منصوبے پر عمل درآمد کا اعلان کیا تھا اور بدھ کو اسرائیلی وزارتِ دفاع کے پلاننگ کمیشن نے ای ون منصوبے کی حتمی منظوری دے دی ہے جس کے تحت یہاں 3400 گھر بسائے جائیں گے۔

ای ون منصوبہ اس زمین پر اسرائیلی آبادی بسانے کا ہے جسے فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کے لیے چاہتے ہیں۔ فلسطینی ایک ایسی آزاد ریاست چاہتے ہیں جس میں غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کا پورا علاقہ شامل ہو۔ لیکن یہ منصوبہ مغربی کنارے کو دو حصوں میں تقسیم کر دے گا اور اسے مشرقی یروشلم سے بھی کاٹ دے گا۔

اسرائیل کے اتحادی بھی ’ای ون‘ منصوبے کے مخالف

اس منصوبے پر عمل درآمد اسرائیل کو مزید تنہا کر سکتا ہے۔ کیوں کہ اسرائیل کے کچھ مغربی اتحادی غزہ جنگ کے جاری رہنے اور اسرائیلی اقدامات پر ناراض ہیں اور ان میں سے بعض ملک ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا بھی اعلان کر چکے ہیں۔

​​اقوامِ متحدہ کے ترجمان اسٹیفان دوجارک نے ای ون منصوبے کی منظوری کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ اقدام دو ریاستی حل کے دل میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آبادکاری کی تمام سرگرمیاں فوری طور پر بند کرے۔‘

فلسطینی وزارتِ خارجہ نے بھی اس منصوبے کی شدید مذمت کی ہے۔ وزارت نے کہا کہ اس آبادکاری سے علاقے میں رہنے والی فلسطینی آبادی تنہائی کا شکار ہو جائے گی اور دو ریاستی حل کا امکان مزید کمزور ہوگا۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ ’اگر اس منصوبے پر عمل ہوا تو یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہوگی اور دو ریاستی حل کو سنگین نقصان پہنچے گا۔‘

جرمن حکومت کے ترجمان نے اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ان بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اور یہ منصوبہ دو ریاستی حل اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔‘

اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس منصوبے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ مگر اتوار کو مغربی کنارے کی ایک اور یہودی بستی کے دورے پر انہوں نے کہا تھا کہ ’میں نے 25 سال پہلے کہا تھا کہ ہم اسرائیلی سرزمین پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ فلسطینی ریاست کے قیام کو روکیں گے، اور ہمیں یہاں سے بے دخل کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنائیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں نے جو وعدہ کیا تھا، ہم نے وہ پورا کر دکھایا۔‘

مغربی کنارے میں آبادکاری پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم ’پیس ناؤ‘ کے مطابق ای ون میں انفراسٹرکچر کا کام چند مہینوں میں شروع ہو سکتا ہے اور گھروں کی تعمیر ایک سال میں شروع ہو سکتی ہے۔

دنیا کے زیادہ تر ممالک کا ماننا ہے کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاریاں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔ تاہم اسرائیل اس سے اختلاف کرتا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا اس علاقے سے تاریخی اور مذہبی تعلق ہے، اور یہ آبادکاریاں اسے اسٹریٹیجک گہرائی اور سلامتی فراہم کرتی ہیں۔

##اسرائیل
##فلسطین
##مغربی کنارہ