
پاکستان فوج نے افغانستان کی جانب سے خوست میں فضائی حملے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان نے افغانستان کے اندر عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا۔‘
منگل کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان اعلانیہ حملہ کرتا ہے سویلین کو نشانہ نہیں بناتا۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق دوحہ مذاکرات میں پاکستان کی پوزیشن واضح تھی اور جو دہشت گردوں کے خلاف پاکستان نے ثبوت دیے انہیں افغان حکام جھٹلا نہیں سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گذشتہ چند سالوں کے واقعات میں امریکی ساختہ ہتھیار استعمال ہوئے اور اس حوالے سے امریکی حکام کے ساتھ معاملہ اٹھایا گیا ہے۔
ترجمان پاکستان فوج نے بتایا کہ ایف سی ہیڈ کوارٹر حملے پر ملوث ’دہشت گرد‘ تیرہ سے آئے تھے اور یہ علاقہ ’دہشت گردوں کا گڑھ بن رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’تیرہ میں دہشت گردوں کی سیاسی سرپرستی ہو رہی ہے۔‘
یاد رہے کہ پشاور میں ایف سی ہیڈ کواٹرز کو پیر کو خودکش حملے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں تین اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے پہلے اسلام آباد کچہری میں بھی خودکش حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے بارہ لوگ جان سے گئے تھے۔
مناسب وقت پر جواب ضرور دیں گے: افغان طالبان
آج صبح افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان پر فضائی حملوں کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی فورسز نے صوبہ خوست میں ایک مقامی رہائشی کے گھر پر بمباری کی جس کے نتیجے میں ایک خاتون اور 9 بچے ہلاک ہوئے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ذبیح اللہ مجاہد کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے صوبہ کنڑ اور پکتیکا میں بھی چھاپے مارے، جن میں چار شہری زخمی ہوئے۔
انہوں نے ایکس پر کی گئی پوسٹ میں کہا ’پچھلے رات بارہ بجے صوبہ خوست کے ضلع گربزو میں پاکستانی فورسز نے مقامی شہری ولایت خان کے گھر پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 9 بچے (5 لڑکے اور 4 لڑکیاں) اور ایک خاتون شہید ہو گئے اور ان کا گھر تباہ ہوگیا۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ
غلط معلومات کی بنیاد پر کوئی کارروائی کرنے سے صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے اور اس کا نتیجہ صرف شرمندگی نکلتا ہے۔ ہم اپنی فضائی حدود، سرزمین اور شہریوں کا دفاع کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ مناسب وقت پر جواب ضرور دیں گے۔
پاکستانی اور افغان افواج کے درمیان اکتوبر میں جھڑپیں شروع ہوئیں، جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
دونوں ملکوں نے اکتوبر میں دوحہ میں فائر بندی معاہدے پر دستخط کیے تھے، تاہم ترکیہ میں ہونے والے امن مذاکرات شدت پسند گروہوں کے معاملے پر اختلافات کے باعث کسی طویل المدتی معاہدے کے بغیر ختم ہو گئے۔






