
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کی مخالفت کرتا رہے گا۔ ان کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں امریکہ کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر بحث جاری ہے اور پیر کو اس پر ووٹنگ متوقع ہے۔ اس قرارداد سے فلسطین کی آزادی کا راستہ کھلا رہنے کی توقع ہے۔
امریکہ نے بعض ممالک کے دباؤ کے بعد اس قرارداد میں ایسے الفاظ شامل کیے ہیں جو فلسطین کے حقِ خودارادیت کی زیادہ مضبوط انداز میں نمائندگی کرتے ہیں۔ قرارداد میں اب یہ شامل ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا تجویز کردہ منصوبہ فلسطین کی آزادی کے لیے 'قابل اعتماد راستہ' فراہم کر سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی 15 رکنی سیکیورٹی کونسل اس قرارداد پر سات نومبر سے مذاکرات کر رہی ہے۔ اس قرارداد کے تحت ٹرمپ کے تجویز کردہ 'بورڈ آف پیس' کے قیام کا مینڈیٹ حاصل کرنا ہے جو غزہ میں تعمیر نو، معاشی سرگرمیوں اور دیگر اہم مسائل کے حل کے لیے کام کرے گا۔
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل غزہ میں انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کے قیام کا مینڈیٹ دینے کے لیے بھی امریکی قرارداد پر ووٹنگ کرے گی۔ تاہم اس قرارداد کی روس، چائنہ اور بعض عرب ملکوں نے مخالفت کی ہے۔
حماس اور دیگر فلسطینی دھڑوں نے بھی امریکہ کی اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایسے بین الاقوامی مینڈیٹ کو غزہ پر تھوپنے کی کوشش ہے جو اسرائیل کے حق میں جانب دار ہے اور اس سے فلسطینیوں کو اپنے امور خود چلانے کے حق سے دور کیا جا رہا ہے۔ اتوار کو جاری اپنے بیان میں فلسطینی گروپس نے کہا ہے کہ بین الاقوامی فورس میں اسرائیل کی شمولیت نہیں ہونی چاہیے اور اسے براہِ راست اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔
ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے میں اسرائیلی رہنماؤں کو کس نکتے پر اعتراض ہے؟
ٹرمپ کے 20 نکاتی امن معاہدے میں ایک شق یہ بھی شامل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی کے اندر اصلاحات کی جائیں تو 'بالآخر وہ حالات پیدا ہو سکتے ہیں جو فلسطینیوں کی خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے ایک قابلِ اعتماد راستہ فراہم کریں جسے ہم فلسطینی عوام کی خواہش تسلیم کرتے ہیں۔'
اس نکتے پر اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں کو سخت اعتراض ہے اور وہ ٹرمپ کے جنگ بندی معاہدے کی مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔
اسرائیل کی حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کے سیاست دانوں اور نیتن یاہو کے اتحادی ان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ امریکہ کے تجویز کردہ غزہ امن معاہدے میں شامل فلسطینی کی آزادی کا راستہ کھلا رکھنے کی مخالفت کریں اور اس پر سخت مؤقف اختیار کریں۔ قرارداد میں یہ فلسطین کی آزادی سے متعلق نکتہ شامل ہونے کے بعد ان کی جانب سے نیتن یاہو پر مزید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اس پر ردعمل دیں۔
نیتن یاہو کی حکومت انہی دائیں بازو کے اتحادیوں کی وجہ سے قائم ہے۔ اگر نیتن یاہو کو دائیں بازو کے اتحادیوں کی حمایت حاصل نہ رہی تو ان کی حکومت اکتوبر 2026 کے اگلے الیکشن سے پہلے ہی گر جائے گی۔
ہفتے کو دائیں بازو کے اسرائیلی وزرا اتامار بین گویر اور بیزالل سموترچ نے نیتن یاہو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے خیال کو مسترد کریں۔ بین گویر نے دھمکی بھی دی کہ اگر وزیرِ اعظم کوئی قدم نہیں اٹھاتے تو وہ حکمران اتحاد سے علیحدہ ہو جائیں گے۔
اس دھمکی کے بعد اتوار کو نیتن یاہو کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ 'فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ہماری مخالفت تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ غزہ ہتھیاروں سے پاک اور حماس غیر مسلح رہے گی۔ چاہے اس کے لیے آسان راستہ اختیار کرنا پڑے یا مشکل۔'
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز اور وزیرِ خارجہ گیدون ساعر نے بھی فلسطینی ریاست کی مخالفت میں بیانات جاری کیے ہیں۔
نیتن یاہو کا یہ دیرینہ مؤقف رہا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام حماس کے لیے انعام ہوگا اور اس سے اسرائیل کی سرحدوں کے ساتھ حماس کی ایک بڑی ریاست قائم ہو جائے گی جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہوگی۔ تاہم امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کے لیے جو معاہدہ تجویز کیا گیا، اس کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم پر عالمی برادری کا سخت دباؤ ہے کہ وہ لچک دکھائیں۔






