کیا ٹرمپ جنگ روکنے کے لیے نئی جنگ چھیڑیں گے؟

11:0619/06/2025, Perşembe
جنرل19/06/2025, Perşembe
عبداللہ مُراد اوغلو

اسرائیل ایران پر حملوں سے دنیا کو ایک بڑی جنگ، حتیٰ کہ عالمی جنگ کی طرف لے جارہا ہے۔ آپ کو یہ بات بظاہر مبالغہ آمیز یا ڈرامائی لگ سکتی ہے، لیکن بعض اوقات ہمارے اندر کے خدشات اور احساسات دراصل اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں جس کی طرف ہم آنکھیں بند کیے بڑھتے جا رہے ہیں۔ جیسے دو عالمی جنگوں میں ہوا، عالمی تباہی یا جنگ کوئی حادثاتی یا خاموش پیش رفت نہیں رہی، بلکہ سب کچھ کھلے عام، واضح انداز میں ہو رہا ہے، لیکن پھر بھی دنیا اسے روکنے میں ناکام ہے۔ امریکی مورخ باربرا ٹک مین نے اپنی مشہور کتاب ’The March

اسرائیل ایران پر حملوں سے دنیا کو ایک بڑی جنگ، حتیٰ کہ عالمی جنگ کی طرف لے جارہا ہے۔ آپ کو یہ بات بظاہر مبالغہ آمیز یا ڈرامائی لگ سکتی ہے، لیکن بعض اوقات ہمارے اندر کے خدشات اور احساسات دراصل اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں جس کی طرف ہم آنکھیں بند کیے بڑھتے جا رہے ہیں۔ جیسے دو عالمی جنگوں میں ہوا، عالمی تباہی یا جنگ کوئی حادثاتی یا خاموش پیش رفت نہیں رہی، بلکہ سب کچھ کھلے عام، واضح انداز میں ہو رہا ہے، لیکن پھر بھی دنیا اسے روکنے میں ناکام ہے۔

امریکی مورخ باربرا ٹک مین نے اپنی مشہور کتاب ’The March of Folly: From Troy to Vietnam‘ میں یہ بتایا کہ انسانی تاریخ میں کئی بڑی جنگیں اور تباہیاں دراصل حکمرانوں کی ضد اور اَنا کا نتیجہ تھیں۔

اس کا جرمن ترجمہ اور بھی دوٹوک تھا: ’حکمرانوں کی حماقت‘، اپنی اس وسیع طور پر زیرِ بحث آنے والی کتاب میں، ٹک مین نے وہ تباہ کن جنگیں گنوائیں جو ایسے حکمرانوں نے چھیڑیں جو یا تو دیکھنے سے قاصر تھے یا جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے تھے کہ تباہی اُن کے سامنے کھڑی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ کس طرح بار بار لیڈرز نے خبردار کیے جانے کے باوجود تباہی کی طرف قدم بڑھا دیے۔

2500 سال پہلے ایتھنز کے جنرل تھوسی ڈائیڈیز (Thucydides) نے بھی تاریخ کو خود کو دہراتے ہوئے دیکھا۔ اپنی مشہور تحریر Peloponnesian War (پیلپونیسیائی جنگ) میں، جو کلاسیکی یونان کے زوال کا سبب بنی، انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ ان کا کام ’ہمیشہ کے لیے ایک اثاثہ‘ بنے گا۔ اگرچہ وہ 27 سالہ جنگ کے اختتام تک زندہ نہ رہ سکے، مگر اُن کا یقین تھا کہ آنے والی نسلیں اُن غلط فیصلوں، جذبات اور اقدامات سے سبق حاصل کریں گی جنہوں نے اس تباہ کن جنگ کو جنم دیا۔

پیلپونیسیائی جنگ، جس میں سیکڑوں ریاستیں، ٹوٹتے اتحاد اور مسلسل بدلتے ہوئے دوست و دشمن شامل تھے، بظاہر قدیم دنیا کی ایک عالمی جنگ جیسی تھی۔ اس جنگ کا ایک بڑا سبق یہ ہے: غلط اندازے اور فیصلے پوری قوموں کو ایسی تباہی میں دھکیل سکتے ہیں جس سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔

ایک نمایاں مثال ایتھنز کا سسلی پر تباہ کن حملہ ہے۔ ایتھنی باشندے اِس زعم میں مبتلا ہو گئے تھے کہ وہ سسلی کی ریاستوں کی دولت لوٹ کر اپنی جاری جنگوں کو باآسانی مالی طور پر چلا سکتے ہیں۔ اسی خوداعتمادی اور غرور میں انہوں نے سسلی پر حملہ کیا۔ لیکن یہ مہم بری طرح ناکام ہوئی اور ایتھنز کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا اور جنگ کا پلڑا اسپارٹا کے حق میں جھک گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت کی بڑی طاقت، ایران (فارس) نے اسپارٹا کا ساتھ دے دیا، حالانکہ وہ پہلے دونوں کا دشمن تھا۔

آج کے مورخین اکثر اس سسلی مہم کو ’ایتھنز کا ویتنام‘ قرار دیتے ہیں، کیونکہ یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں گھسنا آسان مگر نکلنا ناممکن تھا اور جو بالآخر شکست کھانا پڑی ہوئی۔

جنگوں سے کمزور ہونے کے بعد ایتھنز اور اسپارٹا دونوں بالآخر شمال میں اُبھرنے والی مقدونیہ کی سلطنت کے ہاتھوں مغلوب ہو گئیں۔ یوں ان کی صدیوں پرانی دشمنی ختم ہوئی اور طاقت اُس شخص کے والد کے پاس چلی گئی جسے آج ہم سکندرِ اعظم (Alexander the Great) کے نام سے جانتے ہیں۔

آج امریکہ، اسرائیل کو حوصلہ دے کر ایک خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔ کوئی نہیں مانتا کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ امریکہ کی اجازت کے بغیر کیا ہوگا۔

سابق صدر ٹرمپ نے کئی بار کہا تھا کہ وہ امریکہ کو لمبی اور بے مقصد جنگوں سے نکالیں گے۔

اور باوجود اس کے کہ نیو کانز (جنگ پسند قدامت پسند) اور اسرائیل کے حامی حلقے کچھ بھی کہیں، عام امریکی عوام نہیں چاہتے کہ ان کا ملک اسرائیل کی جنگوں میں گھسیٹا جائے۔

ٹرمپ یہ بات سمجھتے ہیں۔ اسرائیل بھی جانتا ہے۔ نیو کانز بھی۔ لیکن اسرائیل کو ڈر ہے کہ کہیں امریکہ اس کا ساتھ نہ چھوڑ دے، اس لیے وہ شاید امریکہ کو زبردستی جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کرے، جو پورے خطے میں جنگ بھڑکا سکتی ہے۔

ہم اس وقت دنیا میں طاقت کے بدلتے توازن کے انتہائی خطرناک موڑ پر کھڑے ہیں۔

جیسے شیکسپیئر نے کہا تھا ہم ایک ایسے دور کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں دنیا کا نظام بگڑ چکا ہے اور سب کچھ اُلجھتا جا رہا ہے۔

لوگ پہلے ہی خبردار کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے بے قابو اقدامات صرف مشرقِ وسطیٰ نہیں، بلکہ دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی جنگ چھڑوا سکتے ہیں۔

ٹرمپ نے ایک بار کہا تھا کہ ’میں نئی جنگیں شروع نہیں کروں گا، میں انہیں ختم کروں گا۔‘ لیکن اب وہ نیتن یاہو کو شہ دے کر شاید ایک نہیں، کئی جنگوں کا دروازہ کھول رہے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ ٹرمپ کے پاس اب بھی اس سب کو روکنے کی طاقت موجود ہے۔ کیونکہ اسرائیل کو امریکہ کی ضرورت زیادہ ہے، جبکہ امریکہ کو اسرائیل کی اتنی ضرورت نہیں۔ اگر امریکہ اپنی حمایت واپس لے لے، تو اسرائیل کے لیے جنگ جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہے اور یہ بات خود اسرائیلی بھی جانتے ہیں۔

رومن ریاست کے رہنما کیٹو دی ایلڈر نے ایک بار کہا تھا کہ ’جو لوگ برائی روک سکتے ہیں لیکن خاموش رہتے ہیں، وہ دراصل اس برائی کو بڑھاوا دے رہے ہوتے ہیں۔‘

اب جب خود ٹرمپ کے حامی بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں میں نہ پڑے، تو بہتر یہی ہوگا کہ ٹرمپ ان آوازوں پر دھیان دیں۔

اگر وہ واقعی چاہتے ہیں کہ نئی جنگیں نہ ہوں، تو پھر انہیں ان مشیروں (نیو کانز) کی باتوں کو نظر انداز کرنا ہوگا جو ہمیشہ جنگ کو ترجیح دیتے ہیں، اور ان خبردار کرنے والی آوازوں پر دھیان دینا ہوگا جو خطرے سے آگاہ کر رہی ہیں۔

لیکن افسوس کہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب تباہی قریب آتی ہے تو اکثر حکمران اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں اور آج وہی تباہی ہمارے خطے (مشرقِ وسطیٰ) کی طرف بڑھ رہی ہے۔


#ایران اسرائیل جنگ
#امریکا
#مشرق وسطیٰ