
ماہرین کہتے ہیں کہ جی7 اجلاس میں اس بار بات چیت کا رخ روس-یوکرین جنگ اور غزہ پر اسرائیل کے حملوں سے ہٹ کر اب ایران کے معاملے پر ہو جائے گا۔
جی سیون ممالک (کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ) کے رہنما اتوار کے روز کینیڈا کے صوبے البرٹا کے پہاڑی علاقے ’کیناناسکس‘ میں ملاقات کریں گے، جہاں وہ تین روز تک اہم موضوعات پر تفصیلی بات چیت کریں گے۔
یہ جی7 سربراہی اجلاس کا 51 واں اجلاس ہوگا۔ پہلا اجلاس 1975 میں فرانس کے شہر رامبویئے میں منعقد ہوا تھا۔ اُس وقت اسے جی6 اجلاس کہا جاتا تھا کیونکہ کینیڈا اگلے سال، یعنی 1976 میں اس گروپ کا رکن بنا تھا۔
روس 1998 میں اس گروپ کا حصہ بنا، جس کے بعد اسے جی 8 کہا جانے لگا۔ لیکن 2014 میں جب روس نے کرائمیا پر قبضہ کیا تو اسے گروپ سے نکال دیا گیا۔ تب سے یہ فورم دوبارہ جی 7 کہلاتا ہے۔
یہ اجلاس 15 سے 17 جون تک جاری رہے گا، اس سال کا اجلاس کئی وجوہات کی بنا پر کشیدگی کا شکار ہو سکتا ہے۔
اس بار مشرقِ وسطیٰ کے سنگین حالات پر خصوصی بات چیت متوقع ہے، کیونکہ جمعے کو اسرائیل نے ایران کے فوجی اور جوہری ٹھکانوں پر بڑے پیمانے پر حملے کیے ہیں۔ اس اجلاس کا پس منظر اُس تجارتی کشمکش سے بھی جڑا ہوا ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال کے آغاز میں مختلف ملکوں پر بھاری تجارتی ٹیکس (ٹیرِف) لگائے، لیکن بعد میں چائنہ کے علاوہ تمام ٹیرف روک دیے۔ اب چائنہ اور امریکہ کے درمیان اس معاملے پر ایک معاہدہ ہو چکا ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی اب بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان سے ناراض دکھائی دیتے ہیں، جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بن جانا چاہیے۔ مئی میں وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کارنی نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’کینیڈا برائے فروخت نہیں ہے‘۔
جی7 دنیا کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا 44 فیصد جبکہ عالمی آبادی کا صرف 10 فیصد حصہ رکھتا ہے۔ اس گروپ میں امریکہ سب سے بڑی معیشت ہے۔ ٹرمپ نے صدر بننے سے پہلے الیکشن مہم میں ’امریکہ فرسٹ‘ کے نعرے لگائے تھے اور اکثر شکایت کرتے رہے کہ امریکہ عالمی معاملات میں سب سے زیادہ کردار ادا کرتا ہے اور دیگر ممالک امریکہ کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
2018 میں جب ٹرمپ نے آخری بار جی7 اجلاس میں شرکت کی، تو ان کے مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ ’یہ ایک اور ایسا اجلاس ہے جہاں باقی ممالک یہ امید رکھتے ہیں کہ امریکہ ہمیشہ ان کے خرچے اٹھائے گا۔ لیکن صدر نے آج صاف بتا دیا ہے کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔‘
اس سال جی سیون اجلاس میں کون شرکت کرے گا اور کن موضوعات پر بات ہو گی؟
اس سال کا جی7 اجلاس کی میزبانی کینیڈا کررہا ہے۔ یہ ساتویں بار ہے کہ کینیڈا کو اس گروپ کی صدارت ملی ہے۔ جی7 ممالک اور یورپی یونین کے رہنماؤں کے علاوہ کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے کئی ایسے ممالک کے رہنماوٴں کو بھی اس اجلاس میں آنے کی دعوت دی جو جی7 کا حصہ نہیں تھے۔
ان مہمانوں میں میکسیکو کی صدر کلاڈیا شینباؤم شامل ہیں، جنہوں نے پیر کے روز اپنی شرکت کی تصدیق کی۔ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کو بھی دعوت دی گئی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو بھی دعوت دی گئی ہے، لیکن ان کی شرکت کے بارے میں ابھی تک تصدیق نہیں ہوسکی۔
مودی کو دعوت دیے جانے پر کینیڈا میں تنقید ہوئی ہے، کیونکہ انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات 2023 سے کشیدہ ہیں، جب اس وقت کے کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے الزام لگایا تھا کہ انڈیا کینیڈا میں ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں ملوث ہے۔
ورلڈ سکھ آرگنائزیشن نے مارک کارنی کی جانب سے مودی کو دعوت دینے کو ’کینیڈا کے سکھوں سے غداری‘ قرار دیا، جبکہ سکھ فیڈریشن کینیڈا نے اسے ‘سنگین توہین‘ قرار دیا۔
مارچ میں مارک کارنی نے یوکرین کے صدر وولودومیر زیلنسکی کو بھی اس ہفتے کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔
اس کے علاوہ آسٹریلیا، برازیل، انڈونیشیا، جنوبی افریقہ اور جنوبی کوریا کے رہنما بھی اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔
اس سال کے جی7 اجلاس کے ایجنڈے میں کیا شامل ہے؟
جی سیون 2025 کے سربراہی اجلاس کی ویب سائٹ کے مطابق اس سال کے اجلاس میں تین اہم نکات زیرِ بحث آئیں گے: نمبر ایک: دنیا بھر میں اپنی کمیونٹیز کا تحفظ‘، نمبر دو: ’توانائی کے نظام کو بہتر بنانا اور ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانا‘، نمبر تین: ’مستقبل کے لیے مضبوط شراکتیں قائم کرنا‘۔
تاہم امکان ہے کہ جی7 رہنما اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری تنازع پر زیادہ توجہ دیں گے۔ اگر اسرائیل اور ایران کا تنازع مکمل طور پر اجلاس پر حاوی نہ ہوا، تو اس سال کے جی7 اجلاس کے دیگر اہم موضوعات میں عالمی تجارتی مسائل، روس-یوکرین جنگ اور چائنہ سے متعلق معاملات شامل ہونے کا امکان ہے۔
اسرائیل-ایران بحران
یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے ٹرینیٹی کالج میں جی7 ریسرچ گروپ کی اسٹریٹجک امور کی ڈائریکٹر جولیا کولک کا کہنا ہے کہ جی7 اجلاس میں اس بار بات چیت کا رخ روس-یوکرین جنگ اور غزہ پر اسرائیل کے حملوں سے ہٹ کر اب ایران کے معاملے پر ہو جائے گا۔
انہوں نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اجلاس میں دیگر رہنما ڈونلڈ ٹرمپ سے سخت سوال کریں گے کہ ایران سے بات چیت کیوں ناکام ہوئی اور وہ اسرائیل کو لڑائی کم کرنے پر کیسے آمادہ کریں گے، اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوں۔‘