
پاکستان کے پہاڑ طویل عرصے سے دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کے لیے توجہ کا مرکز رہے ہیں لیکن اس سیزن میں غیر ملکی کوہ پیماوٴں کی آمد میں کمی دیکھنے میں آئی۔
گلگت بلتستان میں پانچ پہاڑ ایسے ہیں جو دنیا کے 14 بلند ترین پہاڑوں میں شمار ہوتے ہیں جن میں کے ٹو، نانگا پربت، براڈ پیک، گاشر برم اول اور دوم شامل ہیں۔ الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق گلگت بلتستان اس موسم گرما میں صرف 270 غیر ملکی کوہ پیما مہم پر آئے، جب کہ گزشتہ سال یہ تعداد 2000 سے زیادہ تھی۔

الپائن کلب کے نائب صدر کرار حیدری کہتے ہیں کہ سخت موسمی حالات یعنی برفانی تودے گرنا، پتھر گرنا اور بہت تیز ہوائیں چلنے کی وجہ سے بہت سی کوہ پیماؤں کی ٹیموں کو اپنی مہم ادھوری چھوڑنی پڑی اور وہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچے بغیر ہی واپس لوٹ آئے۔
پاکستان کو اس سال موسمیاتی آفات کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ حالیہ مون سون بارشوں کی وجہ سے اب تک ایک ہزار سے زیادہ لوگ جان سے گئے، ہزاروں دیہات بہہ گئے، زرعی زمین ڈوب گئی اور صرف پنجاب میں ہی 20 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے۔
تاہم کرار حیدری نے کہتے ہیں کہ کوہ پیمائی میں کمی کی وجہ صرف موسم نہیں ہے۔ بلکہ بارشوں اور سیلاب کے علاوہ، حالیہ (پاک انڈیا) جنگوں اور کوہ پیمائی کی فیس میں اضافے نے بھی غیر ملکی کوہ پیماؤں کی تعداد میں کمی پیدا کی ہے۔
یاد رہے کہ مئی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار روزہ تنازع ہوا تھا، اس دوران گولہ بارود، فائرنگ اور دھماکے بھی ہوئے تھے۔ جبکہ جون میں پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران کی اسرائیل کے ساتھ بارہ روزہ جنگ ہوئی تھی۔
اس سیزن میں صرف 40 کوہ پیماؤں نے کے ٹو سر کیا، 25 نے نانگا پربت، جبکہ چند ایک نے گاشر برم اول کی چوٹی سر کی۔

مقامی سیاحت اور پورٹرز کی مشکلات
گلگت بلتستان طویل عرصے سے عالمی سیاحوں اور کوہ پیماؤں کے لیے جنت تصور کیا جاتا ہے، لیکن غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں کمی نے مقامی معیشت پر بہت بُرا اثر ڈالا ہے۔ ہوٹل مالکان، دکاندار، ٹرانسپورٹرز حتیٰ کہ قراقرم ہائی وے پر چائے کے کھوکے لگانے والے بھی سب کاروبار کی کمی اور نقصان کا سامنا کر رہے ہیں۔
اشرف علی رضا سدپارہ، جو علاقے کے سب سے تجربہ کار پورٹرز میں سے ایک ہیں اور تین بار کے ٹو سر کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ’ 2020 کے بعد یہ پہلا سیزن ہے جو بالکل خالی جا رہا ہے، اس سال میں کسی ایک مہم میں بھی شامل نہیں ہو سکا۔ عام طور پر یہ ہمارا سب سے مصروف وقت ہوتا تھا۔ ہمیں تو بہت زیادہ آفرز کی وجہ سے کئی مہم جوئیوں کو انکار کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اس سال کا سیزن ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہو گیا ہے۔‘
پورٹرز (وہ مقامی لوگ جو کوہ پیماؤں کا سامان اُٹھاتے اور مہم کے دوران ان کی مدد کرتے ہیں) ہمالیہ میں شرپا کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ مہم کی تیاری اور سامان ڈھونے میں ماہر ہوتے ہیں، لیکن اکثر ان کے ساتھ ناانصافی یا استحصال کیا جاتا ہے۔ اب چونکہ غیر ملکی سیاح نہیں آ رہے، اس لیے وہ روزگار سے محروم اور بیروزگار ہو گئے ہیں۔
الپائن کلب کے نائب صدر کے مطابق مقامی سیاحت بھی ماند پڑ گئی ہے۔ گزشتہ سال ایک ملین سے زائد مقامی سیاح اور 24 ہزار غیر ملکی وزیٹرز (بغیر پرمٹ کے) گلگت بلتستان آئے تھے، لیکن اس سال کمی ’انتہائی تشویشناک‘ ہے۔

’فیس میں اضافہ کے ٹو سمیت دیگر پہاڑوں کی حفاظت کے لیے ہے‘
انڈسٹری کے ماہرین کے مطابق حکومت کی طرف سے کوہ پیمائی کی فیسوں میں اضافہ بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔ گلگت بلتستان انتظامیہ نے کے ٹو کا پرمٹ فیس ایک ہزار 750 ڈالرز سے بڑھا کر 3 ہزار 500 ڈالرز فی کوہ پیما کر دی، جبکہ دیگر 8 ہزار میٹر بلند پہاڑوں کے لیے فیس ایک ہزار ڈالر سے بڑھا کر 2 ہزار 500 ڈالر کر دی گئی۔
اسلام آباد کے ایک ایکسپڈیشن آپریٹر انور سید کہتے ہیں کہ ’کوہ پیما سالوں تک پیسہ بچاتے ہیں تاکہ اپنے خواب پورے کر سکیں۔ جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ اخراجات دگنے یا تگنے ہو گئے ہیں، تو اکثر اپنی مہم جوئی منسوخ کر دیتے ہیں۔ اس پر علاقائی جنگوں نے مزید جلتی پر تیل کا کام کیا‘۔
تاہم گلگت بلتستان کے ڈائریکٹر جنرل برائے سیاحت اقبال حسین نے فیس میں اضافے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ 1999 کے بعد پہلی بار اضافہ کیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فیصلہ کئی عوامل کو مدنظر رکھ کر کیا گیا، بنیادی طور پر ماحولیات کے تحفظ کے لیے۔ اگر بڑھتی ہوئی کمرشل مہم جوئی کو محدود نہ کیا گیا تو یہ پہاڑوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ اضافہ کے ٹو پر بھیڑ کو کم کرنے کے لیے بھی ہے، جو دنیا کا دوسرا بلند ترین لیکن انتہائی خطرناک پہاڑ ہے، جہاں اب تک 86 کوہ پیما اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
اقبال حسین نے پاکستان کی فیسوں کا موازنہ نیپال سے کیا، جو ایورسٹ پرمٹ کے لیے 15 ہزار ڈالر وصول کرتا ہے۔ ’ہم اپنی سیاحت کو فروغ دینے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، لیکن پہاڑوں کی حفاظت بھی ضروری ہے۔‘