
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ ’روس امریکہ کی جانب سے تجویز کردہ یوکرین میں 30 روزہ جنگ بندی کی حمایت کرتا ہے، لیکن ہماری کچھ شرائط ہیں اور اس معاہدے کی تفصیلات پر مزید بات چیت ضروری ہے‘۔
ولادیمیر پیوٹن نے جمعرات کو کریملن میں بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو سے ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ’ روس یوکرین میں جنگ بندی کے لیے امریکی تجاویز سے متفق ہے لیکن اس میں کئی خامیاں موجود ہیں۔ کسی بھی جنگ بندی کے لیے تنازع کی بنیادی وجوہات سے نمٹنا ہوگا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ منصوبہ درست ہے اور ہم اس کی حمایت بھی کرتے ہیں تاہم ایسے خدشات موجود ہیں جن پر ہمیں بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ’یہ یوکرین کے لیے اچھا ہو گا کہ وہ 30 دن کی جنگ بندی پر عمل کرے۔‘
پیوٹن نے کہا کہ ’ہم جنگ بندی کی حمایت تو کررہے ہیں لیکن صرف اس صورت میں کہ یہ معاہدہ عارضی نہیں بلکہ مستقل امن کی راہ ہموار کرے۔ جنگ بندی سے پہلے ان مسائل کو حل کیا جائے جو اس تنازع کی اصل وجوہات بنی ہیں‘۔
پیوٹن نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ ہمیں اس حوالے سے اپنے امریکی ساتھیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے اس دوران کچھ سوالات بھی اٹھائے کہ یہ 30 دن کیسے گزارے جائیں گے؟ کیا یوکرین اس دوران اپنی فوجی تیاری کرے گا؟ یا صرف امن کے لیے وقت نکالا جائے گا؟ اس کی نگرانی کیسے کی جائے گی اور کون لڑائی روکنے کا حکم دے گا؟‘
پیوٹن کے ان بیانات کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیوٹن کا بیان ’انتہائی حوصلہ افزا‘ ہے، لیکن یہ ’مکمل‘ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ روسی صدر سے ملاقات یا گفتگو کے لیے تیار ہیں۔
ٹرمپ نے بتایا کہ امریکہ کے خصوصی سفیر اسٹیو وٹکوف ماسکو میں روسی حکام کے ساتھ جنگ بندی کی تجویز پر سنجیدہ بات چیت میں مصروف ہیں۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے پیوٹن پر تنقید کرتے ہوئے ان کے ردعمل کو ’چالاکی پر مبنی حکمت عملی‘ قرار دیا۔ زیلنسکی نے ٹیلیگرام پر کہا کہ ’وہ (پیوٹن) درحقیقت ابھی سے جنگ بندی سے انکار کرنے کی تیاری رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ روسی صدر ٹرمپ کو براہ راست یہ کہنے سے خوفزدہ ہیں کہ وہ جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں اور یوکرینی شہریوں کو مارنا چاہتے ہیں۔