امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے اس اتوار کو سی این این پر ڈانا بُش کے شو میں کہا کہ یوکرین نیٹو میں شامل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اگر یوکرین نیٹو کا رکن بن گیا تو امریکہ کو آرٹیکل 5 کے تحت یوکرین کا دفاع کرنا ہوگا، کیونکہ اگر یوکرین پر حملہ ہوتا ہے تو امریکہ کو امریکی فوجی مداخلت کا امکان پیدا ہو سکتا ہے اور والٹز کے مطابق ایسا ممکن نہیں ہے۔
والٹز کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان وائٹ ہاؤس میں زبانی تکرار ہوئی تھی۔ اگرچہ واشنگٹن میں زیلنسکی کا گرمجوشی سے استقبال نہیں کیا گیا، لیکن برطانیہ میں انہیں ہیرو کے طور پر خوش آمدید کہا گیا۔ والٹز کے بیان کو اس نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ برطانیہ اور دوسرے یورپی نیٹو ممالک کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ امریکہ یوکرین کی نیٹو رکنیت کے حق میں نہیں، چاہے یورپی ممالک اس کی حمایت کریں۔
والٹز واضح کر رہے ہیں کہ یوکرین امریکہ کی مکمل حمایت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ دوسرے لفظوں میں، ان کا زیلنسکی کو پیغام ہے کہ: نیٹو کو بھول جاؤ۔ جن یورپی ممالک پر تم بھروسہ کر رہے ہو، وہ زیادہ مدد نہیں کر سکتے۔ جو ہم کہتے ہیں، وہی کرو، تب شاید تم یوکرین کے بچے کھچے حصے کو بچا سکو۔
یوکرین کے لیے اصل المیہ یہ ہے کہ امریکہ نے یہ بات یوکرین کو دس سال پہلے نہیں بتائی تھی۔ نیٹو میں شامل ہونے کی امید دے کر واشنگٹن نے کیف کو ایک خطرناک راستے پر ڈال دیا ہے۔ یوکرین کو جھوٹی امیدیں دی گئیں، لیکن آخر میں کچھ ہاتھ نہ آیا اور اب بائیڈن انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ جنگ کے بعد نیٹو کی رکنیت پر غور کریں گے، یہ بات صرف جنگ کو لمبا کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ شاید یہی اصل پلان تھا، کیونکہ ’بائیڈن کا امریکہ‘ تو شروع سے ہی روس کو کمزور کرنے میں لگا ہوا ہے۔
سرد جنگ کے آخری باب کے ایک اہم کردار، بین الاقوامی اقتصادیات کے پروفیسر جیفری ساکس کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی یوکرین پالیسی ہی اس جنگ کی وجہ بنی۔ جیفری ساکس پچھلے 36 سالوں سے امریکا، یورپ اور روس کے درمیان ہونے والی بڑی سیاسی اور معاشی پالیسیوں میں براہِ راست شامل رہے ہیں۔ 1989 میں انہوں نے پولینڈ کی حکومت کو اقتصادی اصلاحات کے بارے میں مشورے دیے، جب ملک کمیونزم سے نکل کر ایک آزاد معیشت کی طرف بڑھ رہا تھا۔ 1990-91 میں انہوں نے سوویت یونین کے آخری رہنما میخائل گورباچوف کو معاشی پالیسیوں پر گائیڈ کیا، جب سوویت یونین زوال پذیر تھا۔ 1991-93 میں جب بورس یلسن روس کے پہلے صدر بنے، تو جیفری ساکس نے انہیں معیشت کی بحالی اور آزاد منڈی کی پالیسیوں پر مشورے دیے۔ بعد میں انہوں نے یوکرین کے صدر لیونیڈ کوچما کی اقتصادی ٹیم کے ساتھ بھی کام کیا تاکہ یوکرین کی معیشت کو ترقی دی جا سکے۔
فروری میں جیفری ساکس نے یورپی پارلیمنٹ میں ایک تقریب کے دوران ’جیوپولیٹکس آف پیس‘ کے عنوان سے ایک تقریر کی۔ اس میں انہوں نے وضاحت کی کہ سرد جنگ کے بعد نیٹو کی پالیسی نے کس طرح یوکرین کو تباہی کی طرف دھکیل دیا۔
2021 کے آخر میں پیوٹن نے دو سیکیورٹی معاہدوں کے مسودے پیش کیے۔ ایک یورپ کے ساتھ اور دوسرا امریکہ کے ساتھ، سب سے بڑا تنازع کیا تھا؟ یوکرین کی نیٹو رکنیت۔
جیفری ساکس نے پیش گوئی کی کہ اگر نیٹو نے یوکرین کے لیے اپنے دروازے باضابطہ طور پر بند نہ کیے تو جنگ ناگزیر ہوگی۔ اسی لیے انہوں نے فوری طور پر امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کو فون کیا۔ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی اس گفتگو کو یاد کرتے ہوئے، جیفری ساکس نے کہا:
’جیک، جنگ سے بچو۔ تم اسے روک سکتے ہو۔ امریکہ کو بس اتنا کہنا ہے: "نیٹو یوکرین تک نہیں پھیلے گا۔"‘
سلیوان نے انہیں تسلی دی: ’نیٹو یوکرین تک نہیں پھیلے گا، فکر نہ کرو۔‘
ساکس نے زور دیا: ’پھر یہ بات عوامی طور پر اعلان کرو۔‘
سلیوان نے انکار کر دیا: ’نہیں، نہیں، نہیں۔ ہم یہ کھل کر نہیں کہہ سکتے۔‘
ساکس نے مزید دباؤ ڈالا: ’کیا تم واقعی ایسی چیز پر جنگ کا خطرہ مول لے رہے ہو جو ویسے بھی ہونے والی نہیں؟‘
سلیوان کا آخری جواب؟ ’فکر نہ کرو، جیف۔ جنگ نہیں ہوگی۔‘
یقیناً جیفری ساکس کی وارننگ کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اور پھر جو ہوا، وہ سب جانتے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے نیٹو کے معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا، اور جنگ شروع ہو گئی۔
جیفری ساکس کے مطابق نیٹو کی نام نہاد ’اوپن ڈور پالیسی‘ (جو نیٹو معاہدے کے آرٹیکل 10 پر مبنی ہے) نیٹو کی سب سے بےوقوفانہ پالیسیوں میں سے ایک ہے۔ روس کی یہ تشویش کہ نیٹو اس کی سرحدوں کے قریب آ رہا ہے، مکمل طور پر نظر انداز کر دی گئی۔
اپنی تقریر میں جیفری ساکس نے ایک واضح مثال دی:
’میرے کینیڈین اور میکسیکن دوستوں سے میں کہوں گا: ایسی غلطی مت کرنا۔ فرض کریں، ٹرمپ کینیڈا کو امریکہ میں شامل کرنا چاہے، اور جواب میں کینیڈا چائنہ سے کہے، 'ہماری مدد کے لیے اونٹاریو میں ایک فوجی اڈہ بنا دو۔' میں یہ مشورہ نہیں دوں گا۔ لیکن کیا امریکہ یہ کہہ کر خاموش بیٹھے گا کہ ’یہ کینیڈا اور چائنہ کا معاملہ ہے، ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں؟‘ ہرگز نہیں، امریکہ فوراً کینیڈا پر حملہ کر دے گا۔"
پھر بھی، یورپی حکام، نیٹو کے رہنما اور برسلز کے پالیسی ساز مسلسل یہی دہراتے رہے کہ نیٹو کی رکنیت میں اضافے کا روس سے کوئی تعلق نہیں۔
جیفری ساکس نے کہا کہ ’یہ تو جیوپولیٹکس کے بنیادی اصول بھی نہیں، یہ تو بس سوچنے کی صلاحیت نہ ہونے والی بات ہے۔‘
بائیڈن انتظامیہ نے سنجیدہ مذاکرات سے انکار کرکے فروری 2022 میں جنگ کا راستہ ہموار کر دیا۔
یہ واضح نہیں کہ جیفری ساکس کی تقریر کا کتنا اثر ہوا، لیکن ایک بات صاف ہے، امریکہ اور یورپ کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے یوکرین کو ایسے چھوڑ دیا جیسے کوئی ناپسندیدہ بچہ، جبکہ برطانیہ اس کا نگران بننے کی کوشش کر رہا ہے اور بدستور بائیڈن کی پالیسی کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ فی الحال حالات یہی ہیں۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔