
آئی جی اسلام آباد کے مطابق ملزم کئی بار ثنا سے رابطہ کرنے اور دوستی کرنے کی کوشش کر رہا تھا، بار بار انکار پر مشتعل ہو کر ملزم نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے لڑکی کو گولی مار کر قتل کر دیا۔
اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 میں سترہ سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ واقعہ کا مقدمہ ان کی والدہ کے مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایکس پر ٹوئٹ کرتے ہوئے ملزم کی گرفتاری پر اسلام آباد پولیس کی تعریف کی۔
انہوں نے لکھا کہ ’پولیس نے ملزم سے پستول اور لڑکی (ثنا یوسف) کا موبائل برآمد کر لیا ہے اور ملزم نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔‘

واقعہ کب پیش آیا؟
ثنا یوسف کو قتل کرنے کا واقعہ پیر کی شام پیش آیا تھا۔ جس کے بعد ان کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے پمز ہسپتال منتقل کیا گیا جس کے بعد ورثا لاش کو آبائی علاقے چترال لے گئے۔ ثنا یوسف اپنے والد، جو کہ ایک سرکاری افسر ہیں، اپنی والدہ اور 15 سالہ بھائی کے ساتھ رہتی تھیں۔
بعدازاں آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملزم واردات کے بعد ثنا یوسف کا موبائل فون اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ پولیس نے کیس کی تفتیش کے دوران 37 افراد سے پوچھ گچھ کی اور سوشل میڈیا پر ملزم کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔ اسلام آباد اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر 11 چھاپے مارے گئے، جن کے نتیجے میں مرکزی ملزم کو فیصل آباد سے گرفتار کر لیا گیا۔ ملزم کی شناخت 22 سالہ عمر کے نام سے ہوئی، جو ایک لوئر مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔
آئی جی کے مطابق عمر میٹرک پاس ہے اور کسی قسم کا روزگار یا ملازمت نہیں کرتا، البتہ وہ خود بھی انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر ایکٹو تھا۔ پولیس نے اس کے قبضے سے واردات میں استعمال ہونے والا پستول اور مقتولہ کا موبائل فون برآمد کر لیا ہے۔
ملزم نے ثنا یوسف کو کیوں قتل کیا؟ اس پر آئی جی اسلام آباد کے مطابق ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کا واقعہ ’ریپیٹڈ رجیکشن‘ یعنی بار بار ٹھکرائے جانے کا نتیجہ تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کئی بار ثنا سے رابطہ کرنے اور دوستی کرنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن ثنا نے ہر بار اسے انکار کیا۔ بار بار انکار پر مشتعل ہو کر ملزم نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے لڑکی کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ آئی جی نے بتایا کہ یہ کیس پولیس کے لیے ایک چیلنج تھا، لیکن کوشش کی گئی کہ کم سے کم وقت میں ملزم کو گرفتار کیا جائے۔ ان کے مطابق ملزم اب پولیس کی حراست میں ہے اور اس سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔
’ملزم گھر میں داخل ہوا، ثنا سے بات کی اور گولی مار دی‘
یہ واقعہ پیر کو شام 5 بجے پیش آیا، جبکہ ان کے والد گھر سے کام کے لیے نکل چکے تھے اور والدہ قریبی مارکیٹ گئی ہوئی تھیں۔
فیملی گھر کے اوپر والے حصے میں رہتی تھی، جہاں ثنا یوسف کو قتل کیا گیا۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم اور ثنا یوسف ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
ثنا یوسف کی پھوپھو نے پولیس کو بتایا کہ واقعے کے وقت وہ گھر پر موجود تھیں اور ملزم نے ثنا یوسف سے کچھ بات بھی کی تھی۔
اُن کے مطابق ثنا نے ملزم سے کہا تھا کہ ’یہاں سے چلے جاؤ، اردگرد کیمرے لگے ہوئے ہیں، میں تمہارے لیے پانی لاتی ہوں‘، جس کے بعد ملزم نے ثنا کے سینے پر دو گولیاں ماریں۔
ثنا یوسف کی والدہ نے ایف آئی آر میں کیا بتایا؟
اسلام آباد کے تھانہ سُمبل میں درج ایف آئی آر کے مطابق ثنا یوسف کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’پیر کی شام ایک اجنبی شخص اچانک ہمارے گھر میں داخل ہوا اور میری بیٹی ثنا یوسف پر گولیاں چلائیں۔ دو گولیاں اس کے سینے پر لگیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’فائرنگ کے بعد وہ شخص سیڑھیاں اُتر کر بھاگ گیا۔ جب ہم نے شور مچایا تو محلے کے لوگ جمع ہو گئے۔ میں نے اپنی بیٹی کو ہمسایوں کی گاڑی میں ڈال کر فوراً ہسپتال پہنچایا، مگر وہ زخموں کی تاب نہ لا سکی اور انتقال کر گئی۔‘
والدہ نے یہ بھی بتایا کہ واقعے کے وقت ’میرے شوہر گھر پر نہیں تھے۔ صرف میں، میری نند اور میری بیٹی ثنا گھر پر موجود تھیں۔‘