
ٹام فلیچر نے کہا کہ "غزہ میں انسانی بحران تباہ کن ہے۔ ہر تین میں سے ایک شخص کئی دنوں سے بھوکا ہے۔ لوگ صرف اپنے بچوں کے لیے کھانا لینے جاتے ہیں اور ان پر گولیاں چلائی جاتی ہیں۔"
اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں انسانی بحران تیزی سے بگڑ رہا ہے۔ ان کے بقول وہاں ہر تین میں سے ایک شخص کئی دنوں سے بھوکا ہے اور بچے بھوک سے کمزور ہو کر مرجھا رہے ہیں۔ کیوں کہ خوراک کا بحران انتہائی شدت اختیار کر چکا ہے۔
اقوام متحدہ میں انسانی امداد کے کوآرڈینیٹر ٹام فلیچر نے اتوار کو کہا کہ اگرچہ اسرائیل نے ایک ہفتے کے لیے امداد بڑھانے کی اجازت دی ہے لیکن قحط سے بچنے کے لیے بہت بڑی مقدار میں امداد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ 'غزہ میں انسانی بحران تباہ کن ہے۔ ہر تین میں سے ایک شخص کئی دنوں سے بھوکا ہے۔ لوگ صرف اپنے بچوں کے لیے کھانا لینے جاتے ہیں اور ان پر گولیاں چلائی جاتی ہیں۔'
غزہ میں اتوار کو اسرائیل کی جانب سے فضا کے ذریعے امدادی سامان گرایا گیا۔ مگر ایک تو یہ انتہائی محدود تعداد میں تھی اور زیادہ تر امداد ان علاقوں میں گرائی گئی جہاں یا تو فلسطینیوں کو جانے کی اجازت نہیں یا وہ حملوں کی وجہ سے جاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔
فضا سے امداد گرانے کے طریقہ کار پر پہلے بھی تنقید ہوتی رہی ہے۔ چند ہفتے قبل فضا سے امداد گرانے کے ایک واقعے میں کئی فلسطینی ہلاک ہوئے تھے۔ اتوار کو بھی امدادی سامان رہائشی خیموں پر گرا جس میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
فلیچر کا کہنا تھا کہ قحط اور صحت کے بڑے بحران سے بچنے کے لیے فوری اور مستقل امدادی رسائی ضروری ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ امدادی قافلوں کو جلد کلیئرنس دی جائے تاکہ دن میں کئی بار امدادی قافلے غزہ میں داخل ہوں، ایندھن کی فراہمی یقینی بنائی جائے، امدادی کارکنوں کو محفوظ راستے دیے جائیں اور امداد کو روکا نہ جائے، نہ ہی تاخیر ہو، اور نہ ہی اس پر حملہ کیا جائے
انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ تمام یرغمالوں کو فوری اور بغیر کسی شرط کے رہا کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں صرف جنگ بندی کی ضرورت نہیں بلکہ جنگ کا مستقل خاتمہ چاہیے۔'
واضح رہے کہ اسرائیل کے حملوں میں اب تک تقریباً 60 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ فلسطینی خبر رساں ایجنسی وافا کا کہنا ہے کہ تقریباً 11 ہزار افراد اب بھی تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، اور یہ دو لاکھ کے قریب ہو سکتی ہے۔
اس جنگ کے دوران اسرائیل نے غزہ کا بڑا حصہ تباہ کر دیا ہے اور تقریباً پوری آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔
پچھلے سال نومبر میں عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور سابق وزیرِ دفاع یواو گیلانٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ جاری ہے۔