
آسام میں ان دنوں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دوبارہ انتخاب کی تیاری کر رہی ہے۔ اسی دوران ملک بھر میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں۔ ان افراد پر ’غیر قانونی گھس پیٹھیے‘ ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
انڈیا کی ریاست آسام کی سرحدیں بنگلہ دیش سے ملتی ہیں۔ یہاں سرحد کے قریب نیلے ترپالوں کے نیچے سینکڑوں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے بے گھر ہو کر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ انہیں حال ہی میں زبردستی ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے کیوں کہ آسام میں ریاستی انتخابات سے پہلے ’غیر قانونی افراد کے خلاف‘ ایک بڑا کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔
یہ لوگ ان ہزاروں خاندانوں میں شامل ہیں جن کے گھر پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران انتظامیہ نے بلڈوز کر دیے ہیں یہ الزام لگا کر کہ یہ سرکاری زمین پر قبضہ کر کے غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔
آسام میں ان دنوں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دوبارہ انتخاب کی تیاری کر رہی ہے اور اسی دوران ملک بھر میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں۔ ان افراد پر ’غیر قانونی گھس پیٹھیے‘ ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ خاص طور پر اگست 2024 میں بنگلہ دیش میں بھارت نواز وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔
ترپن سالہ آرن علی کا دعویٰ ہے کہ وہ آسام میں ہی پیدا ہوئے ہیں مگر ان کے بقول ’ہمیں بار بار ہراساں کیا جاتا ہے۔ ہمیں ناجائز طور پر قابض اور غیر ملکی کہا جاتا ہے‘۔
آسام، انڈیا اور بنگلہ دیش کی 4097 کلومیٹر لمبی سرحد میں سے 262 کلومیٹر کا حصہ رکھتا ہے۔ یہاں دہائیوں سے بنگالی مہاجرین کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔ پھر چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان۔ کیوں کہ مقامی لوگوں کو لگتا ہے کہ باہر سے آئے لوگ ان کی ثقافت اور معیشت پر قبضہ کر لیں گے۔
لیکن مودی حکومت کی حالیہ کارروائیوں میں نشانہ صرف مسلمان بنگالی بنے ہیں۔ اس وجہ سے یہاں مظاہرے بھی ہوئے اور کچھ دن پہلے ایک نوجوان مارا گیا۔
ریاست کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما بی جے پی کے ان لیڈروں میں شامل ہیں جن پر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ الیکشن قریب دیکھ کر پاپولسٹ جذبات ابھارنے کے لیے فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمان گھس پیٹھیے‘ انڈیا کی شناخت کے لیے خطرہ ہیں۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم سرحد پار سے مسلمانوں کی مسلسل آمد کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں جس سے ریاست کا آبادیاتی توازن بگڑ چکا ہے‘۔
ان کے بقول کئی اضلاع میں ہندو اب اپنی ہی زمین پر اقلیت میں بدلنے والے ہیں۔
گزشتہ ہفتے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ آسام کی تین کروڑ دس لاکھ کی آبادی میں 30 فی صد مسلمان مہاجر ہیں اور جلد ہی اقلیت کی آبادی 50 فی صد تک پہنچ جائے گی۔ رائٹرز نے شرما سے رابطہ کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
بنگالی مسلمان آسان ہدف؟
بی جے پی کی حکومت کا طویل عرصے سے یہ نظریہ رہا ہے کہ ہندو اکثریتی انڈیا دنیا بھر کے تمام ہندوؤں کا قدرتی وطن ہے۔ اسی نظریے کے تحت پارٹی نے انڈیا میں مسلمانوں کی بڑی آبادی کے لیے مختلف پالیسیاں نافذ کی ہیں۔
2019 میںبی جے پی حکومت نے انڈیا کا شہریت کا قانون تبدیل کیا تھا جس کے تحت پڑوسی ممالک سے آئے غیر مسلم افراد کو انڈین شہریت دینے کا عمل آسان بنا دیا گیا گیا۔
مگر یہ قانون مسلمانوں پر لاگو نہیں ہوتا جس پر ملک بھر میں خاصا تنازع کھڑا ہوا۔ ناقدین اور انسانی حقوق کے کارکن اس قانون کو متعصبانہ اور انڈیا کے سیکولر آئین کے خلاف قرار دیتے ہیں۔
ہیمنت شرما کے مئی 2021 میں وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد ان کی حکومت نے 160 اسکوائر کلو میٹر کے علاقے سے 50 ہزار افراد کو بے دخل کیا ہے جن میں زیادہ تر بنگالی مسلمان ہیں۔ صرف گزشتہ ایک ماہ میں بنگالی مسلمانوں کے تقریباً 3400 گھر گرائے جا چکے ہیں۔ جب کہ سابق حکومت نے 2016 سے 2021 کے درمیان پانچ سال کے عرصے میں 4700 خاندانوں کو نکالا تھا۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تجزیہ کار پراوین ڈونتھی کہتے ہیں کہ قانونی حیثیت جو بھی ہو، بنگالی بولنے والے مسلمان انڈیا میں دائیں بازو کے گروپوں کا آسان نشانہ بن چکے ہیں۔
حزبِ اختلاف کا الزام ہے کہ ہیمنت شرما ان اقدامات سے انتخابات سے پہلے ووٹروں کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اپوزیشن رہنما اکھیل گوگوئی نے کہا کہ یہ اقدامامت بی جے پی کے لیے سیاسی طور پر فائدے مند ہیں۔
کانگریس پارٹی جو 2016 کے الیکشن میں آسام سے بری طرح ہاری تھی، کہتی ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آ کر مسمار شدہ گھروں کو دوبارہ بنائے گی اور جو لوگ انہیں گرا رہے ہیں انہیں جیل بھیجے گی۔
’اب سارا زور بنگالی مسلمانوں پر ہے‘
اپریل میں پیش آںے والے پہلگام واقعے کے بعد انڈیا میں ان بے دخلیوں میں تیزی آئی ہے۔
اس کے بعد جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں ہزاروں بنگالی مسلمانوں کو حراست میں لیا گیا اور انہیں ’غیر قانونی مہاجر‘ اور سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈھاکہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد نئی دہلی کے ساتھ اس کے تعلقات میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے اور شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگالی مسلمانوں کے خلاف جذبات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ یہ صورتِ حال بی جے پی کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک سیاسی ہتھیار بن گئی ہے۔
آسام سمیت کچھ ریاستوں نے سینکڑوں بنگالی مسلمانوں کو واپس بنگلہ دیش بھی بھیجا ہے لیکن ان میں سے کچھ کو دوبارہ واپس لانا پڑا کیوں کہ ان کی بے دخلی کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا تھا۔
آسام کے حکام کے مطابق خصوصی عدالتوں نے ریاست میں 30 ہزار افراد کو غیر ملکی قرار دیا ہے۔ یہ لوگ طویل عرصے سے آسام میں ہی مقیم ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیش تر کو غلط طور پر غیر ملکی قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر غریب مقامی رہائشی ہیں جو قانونی لڑائی کی طاقت نہیں رکھتے۔
انڈیا نے 2016 میں کہا تھا کہ ملک میں دو کروڑ غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر موجود ہیں۔ مئی 2025 میں انڈیا نے بنگلہ دیش کو 2369 افراد کو ڈی پورٹ کرنے کے لیے بنگلہ دیش کو ایک فہرست بھی بھیجی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا ڈائریکٹر ایلین پیئرسن کہتی ہیں کہ بھارتی حکومت غیر قانونی تارکین وطن کے نام پر ہزاروں کمزور لوگوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور اس کی پالیسیاں مسلمانوں کے خلاف واضح طور پر تعصب دکھاتی ہیں۔
جب سے بنگلہ دیش کی بھارت نواز وزیراعظم شیخ حسینہ کو ہٹایا گیا ہے اور بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت پر حملے بڑھے ہیں، آسام کے وزیراعلیٰ شرما اکثر اپنے سوشل میڈیا پر سرحد پر پکڑے گئے ’دراندازوں‘ کی تصاویر شیئر کرتے ہیں۔
ماہر ڈونتھی کے مطابق آسام میں طویل عرصے سے پالیسیوں پر اثر انداز ہونے والی نسلی قوم پرستی اب بی جے پی کی مذہبی قوم پرستی کے ساتھ مل گئی ہے اور اب سارا زور بنگالی بولنے والوں کے بجائے بنگالی اسپیکنگ مسلمانوں پر ہے۔